Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Imran Ayat 31 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(89) | Tarteeb e Tilawat:(3) | Mushtamil e Para:(33-4) | Total Aayaat:(200) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3953) | Total Letters:(14755) |
{قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرنے والاہو اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت اختیار کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قریش کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانۂ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اے گروہِ قریش !خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے ہٹ گئے ہو۔ قریش نے کہا: ہم ان بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں۔اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)
اور بتایا گیا کہ محبت ِالہٰی کا دعویٰ حضورسید ِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی اختیار کرے اور چونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کوحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ تب یہ آیت اتری۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہی قول قوی ہے کیونکہ سورۂ آلِ عمران مدنی ہے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ضروری ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(اعراف:۱۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم یہودیوں کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا اور اگر آج حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا ۔ (شعب الایمان، الرابع من شعب الایمان، ذکر حدیث جمع القرآن، ۱ / ۱۹۹، الحدیث: ۱۷۶)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کے جذبے کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :
(1)… حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث: ۲۵۱(۱۲۷۰))
اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)
(2)…حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے۔) (مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان، ۱ / ۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)
(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.