Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Imran Ayat 48 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(89) | Tarteeb e Tilawat:(3) | Mushtamil e Para:(33-4) | Total Aayaat:(200) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3953) | Total Letters:(14755) |
{وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پانچ معجزات کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، (5)غیب کی خبریں دینا۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کی تفصیل:
(1)…پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبوت کا دعویٰ کیااور معجزات دکھائے تو لوگوں نےدرخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)
چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اوروہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ (جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۸)
(2)…کوڑھیوں کو شفایاب کرنا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل ہوگیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ،ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)
(3)…مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسر اایک بڑھیا کا لڑکاتھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے جارہا تھا ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے، گھرآگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جوشام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اس کو زندہ کیا۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کو زندہ کریں۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۹-۴۲۰، ملتقطاً)
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جسے زندہ فرماتے اسے’’ بِاِذْنِ اللہِ ‘‘یعنی ’’اللہ کے حکم سے‘‘ فرماتے ۔ اس فرمان میں عیسائیوں کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت یعنی خدا ہونے کے قائل تھے۔
(4)… غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کررکھا ہوتا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کررکھی ہے، بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۲۰، ملتقطاً)
سورۂ آلِ عمرا ن کی آیت نمبر49 سے معلوم ہونے والے عقائد ومسائل:
اس آیتِ مبارکہ سے بہت سے عقائد و مسائل معلوم ہوتے ہیں۔
(1)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات عطا ہوئے۔
(2)…انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات عطا ہوتے ہیں۔
(3)…بہت سے معجزات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اختیار سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان معجزات میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
(4)…معجزات بہت سی قسموں کے ہوسکتے ہیں حتّٰی کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا بھی معجزہ ہوتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اختیارات اور قدرتیں عطا فرماتا ہے۔
(6)…محبوبانِ خدا لوگوں کی حاجت روائی پر قدرت رکھتے ہیں اور ان کی مشکل کشائی فرماتے ہیں۔
(7)…محبوبانِ خدا عام عادت سے ہٹ کر مشکل کشائی کرتے ہیں۔
(8)…محبوبانِ خدا کی قدرتیں عام مخلوق کی قدرتوں سے بڑھ کر اور بالا تر ہوتی ہیں۔
(9)…محبوبانِ خدا شفا بھی بخشتے ہیں۔
(10)… اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اسی لئے بطورِ خاص اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور محبوبانِ خدا کی بارگاہ میں عرض کی جاتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش فرمادیں اور ہمارے لئے دعا کردیں۔
(11)…محبوبانِ خدا کے تمام اختیارات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا اور اجازت سے ہوتے ہیں۔
(12)…محبوبانِ خدا کے اختیارات کا انکار کرنا سیدھا قرآن کا انکار کرنا ہے۔
(13)…محبوبانِ خدا کیلئے قدرت و اختیار ماننا شرک نہیں ورنہ معاذاللہ قرآن پاک کی تعلیمات کو کیا کہیں گے؟
(14)…شِفا دینے، مشکلات دور کرنے وغیرہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے استعمال کرنا شرک نہیں لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مشکل کشا اور دافعُ البلاء ہیں ،یا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اولاد دیتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں مردے زندہ کرتا ہوں ، میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہوں ، میں غیبی خبریں دیتا ہوں ، حالانکہ یہ تمام کام ربّ عَزَّوَجَلَّ کے ہیں۔
(15)… محبوبانِ خدا غیب کی خبریں جانتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھروں میں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی جانتے تھے۔
(16)…محبوبانِ خدا کیلئے علومِ غَیْبِیَہ ماننا توحید کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا انکار کرنا توحید کے منافی ہے۔ اس آیت میں جتنا غور کرتے جائیں اتنا زیادہ عقائد ِ اہلسنّت واضح ہوتے جائیں گے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.