Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Imran Ayat 97 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(89) | Tarteeb e Tilawat:(3) | Mushtamil e Para:(33-4) | Total Aayaat:(200) |
Total Ruku:(20) | Total Words:(3953) | Total Letters:(14755) |
{فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں۔} خانۂ کعبہ کی عظمت و
شان کا بیان چل رہا ہے، اسی ضمن میں فرمایا کہ خانۂ کعبہ میں بہت سی
فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان
نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر
سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو
پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر
جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا
نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں
شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر
کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد
حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد
ہوجاتا ہے۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان
فرمایا گیا ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، تفسیرات
احمدیہ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۰۱-۲۰۲، ملتقطاً)
{مَقَامُ اِبْرٰهِیْمَ: ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔} مقامِ ابراہیم
وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کعبہ شریف کی تعمیر کے
وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود
بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ
گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، ملتقطاً)
بزرگوں سے نسبت کی برکت:
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر
سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرُ اللّٰهِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا
ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَ
الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ (بقرہ:۱۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی
نشانیوں میں سے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ
حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُ اللہ بن
گئے۔
{وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا: اور جو اس میں داخل ہوا
امن والاہوگیا۔} خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ
نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے
حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم
کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ نے
فرمایا کہ’’اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو
ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔(مدارک،
اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۱۷۴)
حرم سے کیا مراد ہے؟
حرم سے مراد خانہ کعبہ کے
ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے
ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان
ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے
کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔
{وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ
الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی
فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵ / ۶، الحدیث: ۳۰۰۹)
حج فرض ہونے کے لئے زادِ
راہ کی مقدار:
کھانے پینے کا انتظام اس
قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک
اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے
بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔[1]
{وَ مَنْ كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت
بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ
اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ
کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر
ہے۔
[1] ۔۔۔۔
آسان انداز میں حج کے مسائل سیکھنے کے لئے امیرِ اہلسنّت
دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف رفیق الحرمین(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ بہت
مفید ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.