Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Isra Ayat 100 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(50) | Tarteeb e Tilawat:(17) | Mushtamil e Para:(15) | Total Aayaat:(111) |
Total Ruku:(12) | Total Words:(1744) | Total Letters:(6554) |
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلے آیت نمبر 90 میں کفار کا ایک مطالبہ گزرا کہ ان کے شہر میں نہریں اور چشمے جاری کر دئیے جائیں تاکہ ان کے مال زیادہ ہو جائیں اور ان کی معیشت بہتر ہوجائے تو اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں ’’اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو بھی تم اپنے بخل اور کنجوسی پر قائم رہتے اور خرچ ہوجانے کے ڈر سے ان خزانوں کو روک رکھتے ۔( تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۷ / ۴۱۲)
اس آیتِ مبارکہ میں لوگوں کے خرچ کرنے کا حال بیان ہوا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق پر کتنا خرچ فرمایا ہے اور کتنا خرچ فرما رہا ہے اس کا عالَم ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کا دست ِکرم بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا خرچ کرنا بھی اسے کم نہیں کرتا ،تم ذرا غور تو کرو کہ جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو بنایا ہے تب سے اس نے کتنا خرچ فرمایا ہے لیکن جو کچھ اس کے دست ِقدرت میں ہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے قبضہ میں میزان ہے جسے وہ بلند و پَست فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ تعالی: لما خلقت بیدیّ، ۴ / ۵۴۳، الحدیث: ۷۴۱۱)
{وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا:اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔} یہاں انسان کو اس کی اصل کے اعتبار سے بڑ اکنجوس فرمایا گیا ہے کیونکہ انسان کو محتاج پیدا کیا گیا ہے اور محتاج لازمی طور پر وہ چیز پسند کرتا ہے جس سے محتاجی کا ضَرَر اس سے دور ہو جائے اور اسی لئے وہ اس چیز کو اپنی ذات کے لئے روک لیتا ہے جبکہ اس کی سخاوت خارجی اَسبا ب کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے اسے اپنی تعریف پسند ہوتی ہے یا ثواب ملنے کی امید ہوتی ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے بخیل ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۱۹۴)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.