Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Isra Ayat 53 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(50) | Tarteeb e Tilawat:(17) | Mushtamil e Para:(15) | Total Aayaat:(111) |
Total Ruku:(12) | Total Words:(1744) | Total Letters:(6554) |
{وَ قُلْ: اور آپ فرمادیں ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بدکلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے، انہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کفار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں بلکہ صبر کریں اور انہیں صرف یہ دعا دیدیا کریں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہ (اللّٰہ تمہیں ہدایت دے۔) یہ حکم یعنی بہرحال صرف صبر ہی کرنا ، جہاد کے حکم سے پہلے تھا ، بعد میں منسوخ ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ(اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو)‘‘( توبہ :۷۳)اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی ایک کافر نے اُن کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۷۷، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۵۳، ملتقطاً)
بہرحال آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایمان والوں سے فرمادیں کہ وہ کافروں سے وہ بات کیا کریں جو نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو حتّٰی کہ کفار اگر بے ہودگی کریں تو اُن کا جواب اُنہیں کے انداز میں نہ دیا جائے۔ فی زمانہ جہاد کا حکم موجود ہے لیکن وہ حکومت کے انتظام سے ہوتا ہے، یہ نہیں کہ اب کوئی کافر کسی مسلمان سے بدکلامی کرے تو یہ اس سے جہاد و قتال شروع کردے بلکہ اب اگر ایسا ہو تو بھی قانونی کاروائی ہی کی جاسکتی ہے۔ ہاں کافر قوم مسلمانوں سے عمومی رویہ یہ بنالے اور اب سلطنت جہاد کا فیصلہ کرے تو وہ جدا حکم ہے۔ اور انفرادی طور پر تو کفار کی بداَخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا اب بھی سنت ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ دلیل توقوی دو مگر بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالو ۔ فی زمانہ اس حکم پر عمل کرنے کی سخت حاجت ہے کیونکہ ہمارے ہاں دلیل سے پہلے گولی اور گالی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ آیت کے آخری حصے میں بتادیا کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی شیطان کے ہتھیار ہیں اور ان کے ذریعے وہ تمہیں غصہ دلواتا اور بھڑکاتا ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دو ، جس سے لڑائی فساد کی نوبت آجائے۔ یہ شیطان کی انسان سے دشمنی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.