Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Kahf Ayat 110 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(69) | Tarteeb e Tilawat:(18) | Mushtamil e Para:(15-16) | Total Aayaat:(110) |
Total Ruku:(12) | Total Words:(1742) | Total Letters:(6482) |
{قُلْ:تم فرماؤ۔} حضرت عبد
اللہ بن
عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عاجزی کی تعلیم دی اور انہیں یہ کہنے کا
حکم دیا کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں (یعنی جیسے تم انسان ہو اسی طرح میں بھی انسان ہوں
) البتہ مجھے (تم پر) یہ خصوصیت حاصل ہے کہ
میری طرف وحی آتی ہے اور وحی کے سبب اللہ تعالیٰ نے مجھے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(کافر) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا سا بشر
مانتے تھے اس لئے ان کی رسالت سے منکر تھے کہ
’’مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا
بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ-وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ-اِنْ اَنْتُمْ
اِلَّا تَكْذِبُوْنَ‘‘(یس:۱۵)
تم تو ہمارے جیسے آدمی
ہواور رحمٰن نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم صرف جھوٹ بول رہے ہو۔
واقعی جب ان خُبَثاء کے نزدیک وحی ِنبوت باطل تھی تو انہیں اپنی اسی بشریت کے
سواکیا نظر آتا؟لیکن اِن سے زیادہ دل کے اندھے وہ (ہیں جو) کہ وحی ونبوت کا
اقرار کریں اور پھر انہیں ( یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ) اپنا ہی سا بشر
جانیں ، زید کو’’قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ‘‘ سوجھا اور ’’ یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ نہ سوجھا جو غیر متناہی فرق ظاہر کرتا ہے، زید
نے اتناہی ٹکڑا لیا جوکافر لیتے تھے، انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشریت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَلکیت سے اعلیٰ ہے، وہ ظاہری صورت میں ظاہر
بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا اِن سے اُنس حاصل کرنا
اور ان سے فیض پانا (ہے) ولہٰذا ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ
مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ‘‘(انعام:۹)
اور اگرہم فرشتے کو رسول
کرکے بھیجتے تو ضرور اسے مردہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور
انھیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں ۔
(اس سے) ظاہر ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی ظاہری صورت دیکھ کر انھیں اوروں کی مثل
سمجھنا ان کی بشریت کو اپناسا جاننا، ظاہر بینوں (اور) کور باطنوں کا دھوکا ہے (اور) یہ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں ۔۔۔ ان کا کھانا
پینا سونا یہ افعالِ بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کےمحتاج ہیں، حاشا(یعنی ہر گز نہیں ، آپ
تو ارشاد فرماتے ہیں ) ’’لَسْتُ
کَاَحَدِکُمْ اَنِّیْ اَبِیْتُ
عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ‘‘ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات
بسرکرتاہوں وہ مجھے کھلاتابھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔ (ت) (بلکہ) ان کے یہ افعال بھی اقامتِ سنت وتعلیمِ امت کے لئے
تھے کہ ہر بات میں طریقۂ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں، جیسے ان کا
سَہوونِسیان ۔حدیث میں ہے ’’اِنِّیْ
لَا اَنْسیٰ وَلٰکِنْ اُنْسٰی لِیَسْتَنَّ بِیْ ‘‘ میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالتِ سہو میں امت کوطریقۂ
سنت معلوم ہو۔ عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول (اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ) حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے
پر مامور ہوئے، جس کی حکمت تعلیمِ تواضع، وتانیسِ اُمت، و سدِّغُلُوِّنصرانیت (یعنی عاجزی کی تعلیم،امت
کے لئے اُنسیت کا حصول اور عیسائی جیسے اپنے نبی کی شان بیان کرنے میں حد سے بڑھ
گئے مسلمانوں کو اس سے روکنا) ہے، اول ،دوم ظاہر، اور سوم یہ کہ مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا ،پھر فضائل
ِمحمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا
اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃ کی عظمت ِشان کا اندازہ کون کرسکتا ہے، یہاں اس
غلو کے سدِّباب (روکنے) کے لئے تعلیم فرمائی گئی
کہ کہو’’ میں تم جیسا بشرہوں خدا یا خدا کابیٹا نہیں ، ہاں ’’یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ رسول ہوں ، دفعِ
اِفراطِ نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ تھا اور دفعِ تفریط ِابلیسیَّت کے لئے دوسرا
کلمہ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشادہوا:
’’قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ
هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرمادو پاکی ہے میرے
رب کومیں خدا نہیں ،میں تو ا نسان رسول ہوں ۔
اِنہیں دونوں کے
دفع کوکلمہ ٔشہادت میں دونوں لفظِ کریم جمع فرمائے گئے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہْ‘‘ میں اعلان کرتا ہوں کہ
حضرت محمدصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ (ت) بندے ہیں خدا نہیں
، رسول ہیں خدا سے جدا نہیں، شَیْطَنَت اس کی کہ دوسرا کلمہ امتیازِ اعلیٰ
چھوڑ کرپہلے کلمہ تواضع پر اِقتصار کرے۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۶۲-۶۶۵)
صدر
الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صورتِ خاصہ میں کوئی بھی آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا مثل نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلیٰ و بالا کیا اور حقیقت و روح
و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء (عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )اوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں
، جیسا کہ شفاء قاضی عیاض (قاضی عیاض رَحْمَۃُ
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’شفاء‘‘) میں ہے اور شیخ عبد
الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا
کہ انبیاء عَلَیْہِمُ
السَّلَام کے اَجسام و ظواہر
تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور اُن کے اَرواح و بَواطن بشریت سے بالا اور مَلاءِ
اعلیٰ سے متعلق ہیں۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے سورۂ والضُّحیٰ کی
تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلا ًنہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر
علی الدَّوام حاصل ہو۔ بہرحال آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کی ذات و کمالات
میں آپ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی
ظاہری صورتِ بشریہ کے بیان کا اظہارِ تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا، یہی
فرمایا ہے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے۔(خزائن العرفان، الکہف،
تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۵۶۹)
ترا مسند ِناز ہے عرشِ
بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے
شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سیّد المرسَلین
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے سے
متعلق 3 اَہم باتیں :
یہاں تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے سے متعلق 3 اَہم
باتیں یاد رکھیں :
پہلی
بات یہ کہ کسی کو جائز
نہیں کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر
کہے کیونکہ جو کلمات عزت و عظمت والے اصحاب عاجزی کے طور پر فرماتے
ہیں انہیں کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا۔
حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’واضح رہے کہ
یہاں ایک ادب اور قاعدہ ہے جسے
بعض اَصفیا اور اہل ِتحقیق نے بیان کیا ہے اور اسے جان لینا اور اس پر عمل پیرا
ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی
مقام پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے
کوئی خطاب، عتاب، رعب ودبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں
دے سکتے، آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے، آپ کے لئے کوئی شے نہیں ، آپ حیاتِ دُنْیَوی
کی زینت چاہتے ہیں، اور اس کی مثل دیگر مقامات، یا کسی جگہ نبی کی طرف سے
عبدیَّت، انکساری، محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمہاری
طرح بشر ہوں ، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے اُدھر کیا ہے، میں نہیں جانتا میرے
ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور اس کی مثل دیگر مقامات۔ ہم امتیوں اور
غلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں ، ان میں اِشتراک کریں اور اسے
کھیل بنائیں ، بلکہ ہمیں پاسِ ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور تَوَقُّف کرنا لازم
ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی و غلبہ
کا اظہار کرے، بندے کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا
اظہار کرے، دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حدِّ ادب سے باہر
نکلنے کی کوشش کرے، اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں
جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔( مدارج النبوت، باب
سوم در بیان فضل وشرافت، وصل در ازالۂ شبہات، ۱ / ۸۳-۸۴)
دوسری
بات یہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ اور مَراتبِ رفیعہ عطا
فرمائے ہوں ، اُس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے عام وصف سے اس کا
ذکر کرنا جو ہر خاص و عام میں پایا جائے ، اُن کمالات کو نہ ماننے کی
طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے سلامتی اسی میں ہے کہ فضیلت و مرتبے پر فائز ہستی
کا ذکر اس کے فضائل اور ان اوصاف کے ساتھ کیا جائے جن کی وجہ سے وہ
دوسروں سے ممتاز ہے اور یہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ ہے،جیساکہ حضرت
ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ
فرماتے ہیں: تاجدارِ رسالت صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبرستان میں تشریف
لے گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ بے شک اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ ہم اپنے (دینی) بھائیوں کو دیکھیں ۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم آپ کے (دینی ) بھائی نہیں ؟ ارشاد
فرمایا ’’( دینی بھائی ہونے
کے ساتھ تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ) تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے (صرف دینی) بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرّۃ
والتحجیل فی الوضوئ، ص۱۵۰، الحدیث: ۳۹(۲۴۹))
اسی
طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے
فرمایا ’’جب تم رسول کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود بھیجا کرو تو
اچھی طرح بھیجا کرو، تمہیں کیا پتہ کہ شاید وہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پیش کیا جاتا ہو۔ لوگوں نے عرض کی:
تو ہمیں سکھا دیجئے ۔آپ نے فرمایا: یوں پڑھا کرو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَا تَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَا تِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ
الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًایَغْبِطُہُ
بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ
عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ
عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّد کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی
آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ
الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ /
۴۸۹، الحدیث: ۹۰۶، مسند ابی یعلی، مسند عبد اللہ
بن مسعود، ۴ / ۴۳۸، الحدیث: ۵۲۴۵، ملتقطاً)
اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو
آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر
آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا
جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے۔ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو یہ کہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی صورتِ ظاہری بشری
ہے (اور) حقیقت ِباطنی
بشریت سے ارفع واعلیٰ ہے، یا یہ (کہے) کہ حضور اوروں کی مثل بشر نہیں ،وہ سچ کہتا ہے اور
جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے،قال تعالٰی
’’ قُلْ سُبْحَانَ
رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے
میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں ۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۳۵۸)
تیسری
بات یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کفار کا طریقہ بتایا گیا ہے
کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو
اپنے جیسا بشرکہتے تھے اور اسی سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے لہٰذا
جس مسلمان کے دل میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی ادنیٰ رمق بھی باقی ہے ا س پر
لازم ہے کہ وہ کفار کا طریقہ اختیار کرنے سے بچے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر
سمجھ کر گمراہوں کی صف میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔
{اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ:تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔} یعنی مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی
معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں تو جو اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ
نیک کام کرے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت
میں کسی کو شریک نہ کرے۔ شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو
شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ /
۲۲۸، مدارک،
الکہف، تحت الآیۃ:
۱۱۰، ص۶۶۵-۶۶۶، ملتقطاً)
ریاکاری کی مذمت
پر 4 اَحادیث:
موضوع
کی مناسبت سے یہاں ریاکاری کی مذمت پر 4 اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس نے کسی عمل
میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔(مسلم، کتاب
الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللّٰہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))
(2)…حضرت ابو سعید بن ابو
فضالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن جس
میں کوئی شک و شبہ نہیں، لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا:
جس نے کسی ایسے عمل میں جو اس نے اللہ کے لئے کیا تھا ،کسی کو
شریک ٹھہرایا تو اسے اس کا ثواب اسی غیرِ خدا سے طلب کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۱۶۵)
(3)…حضرت محمود بن
لَبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے د ن جب اللہ عَزَّوَجَلَّ بندوں کو ان کے اعمال
کابدلہ دے گا توریاکاروں سے فرمائے گا: ان کے پاس جاؤ جنہیں دکھانے کے لئے تم دنیا
میں عمل کیا کرتے تھے اور دیکھو! کیا تم ان کے پاس کوئی بدلہ یا بھلائی پاتے ہو؟( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۳۳، الحدیث: ۶۸۳۱)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگو۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: جہنم کی ایک وادی ہے جس سے
جہنم (بھی) روزانہ سو مرتبہ
پناہ مانگتی ہے۔ ہم نے عرض کی: اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’وہ
قاری جو اپنے اعمال لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے تھے(ترمذی،کتاب
الزھد ، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۷۰، الحدیث: ۲۳۹۰)۔([1])
[1] ۔۔۔ریاکاری سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے
کتاب ’’ریاکاری‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.