Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Lail Ayat 10 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(9) | Tarteeb e Tilawat:(92) | Mushtamil e Para:(30) | Total Aayaat:(21) |
Total Ruku:(1) | Total Words:(87) | Total Letters:(313) |
{اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰى: بیشک تمہاری کوشش ضرور مختلف قسم
کی ہے۔} شانِ نزول : اُمیہ بن خلف حضرت بلال رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جو کہ اس کی غلامی میں تھے
،دین سے مُنْحَرِ ف کرنے کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں دیتا اور انتہائی ظلم
اور سختیاں کرتا تھا۔ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ اُمیہ نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو گرم زمین پر ڈال کرتپتے ہوئے پتھر
ان کے سینے پر رکھے ہیں اور اس حال میں بھی ایمان کا کلمہ اُن کی زبان
پر جاری ہے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمیہ سے فرمایا’’ اے بدنصیب!
توایک خدا پرست پر ایسی سختیاں کر رہا ہے۔ اُس نے کہا: آپ کو اس کی تکلیف
ناگوار ہے تو اسے خرید لیجئے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مہنگی قیمت پر اُن کو خرید کر آزاد کردیا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی
اور اللّٰہ تعالیٰ نے رات ،دن اور اپنی ذات کی
قسم ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ تمہاری کوششیں مختلف ہیں یعنی حضرت ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کوشش اور اُمیہ کی کوشش مختلف ہے
اور حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں اورامیہ حق کی
دشمنی میں اندھا ہے۔ (تفسیر بغوی ، اللّیل ، تحت الآیۃ: ۴ ، ۴ / ۴۶۲، روح البیان ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۰ / ۴۵۱، خزائن العرفان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۰۷)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :امام قفال رَحْمَۃُاللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ سورت اگرچہ
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنے اور امیہ بن خلف کے بخل اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کے بارے میں
نازل ہوئی ہے البتہ اس کے معانی تمام لوگوں کو عام ہیں ۔ (تفسیرکبیر، تفسیر سورۃ اللّیل، ۱۱ / ۱۸۱) چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد
والی6آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک تمہارے اعمال جداگانہ ہیں کہ کوئی اطاعت کر
کے جنت کے لئے عمل کرتا ہے اور کوئی نافرمانی کرکے جہنم کے لئے عمل کرتا ہے تو وہ
شخص جس نے اپنا مال راہِ خدا میں دیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا اور ممنوع و حرام چیزوں سے بچ کر پرہیزگاربنا
اور سب سے اچھی اسلا م کی راہ کو سچا مانا تو بہت جلد ہم اسے جنت کے لئے آسانی
مہیا کردیں گے اور اسے ایسی خصلت کی توفیق دیں گے جو اس کے لئے آسانی
اور راحت کا سبب ہو اور وہ ایسے عمل کرے جن سے اس کا رب عَزَّوَجَلَّ راضی ہو، اور وہ شخص جس نے بخل کیا اور اپنا مال نیک کاموں میں
خرچ نہ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے حق ادا نہ کئے اور ثواب اور آخرت کی نعمت سے بے پرواہ بنا اور سب
سے اچھی اسلام کی راہ کو جھٹلایا تو بہت جلدہم اسے ایسی خصلت مہیا کردیں گے
جو اس کے لئے دشواری اور شدت کا سبب ہو اور اسے جہنم میں پہنچادے۔( جلالین، واللّیل،تحت الآیۃ:۴-۱۰،ص۵۰۱، خازن،
واللّیل، تحت الآیۃ: ۴-۱۰، ۴ / ۳۸۳، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۴-۱۰، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)
آیت ’’اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰى‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ برحق مومن، صحابی اور بڑے متقی ہیں
کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے کفار سے مختلف قرار
دیا۔
(2)… تمام انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ مومن اور
کافر، متقی اور فاسق، دنیادار اور دیندار مختلف ہیں ، ان کے اعمال اور ان کی
کوششیں جدا گانہ ہیں ۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ
الْجَنَّةِؕ-اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(حشر:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں
، جنت والے ہی کامیاب ہیں ۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ﳳ-لَا
یَسْتَوٗنَؐ(۱۸) اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى٘-نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۱۹) وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا
فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ
اُعِیْدُوْا فِیْهَا وَ قِیْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ
كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ (سجدہ:۱۸۔۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جونافرمان ہے؟ یہ برابر نہیں
ہیں ۔بہرحال جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے توان کے لیے ان
کے اعمال کے بدلے میں مہمانی کے طور پر رہنے کے باغات ہیں ۔ اور وہ جو
نافرمان ہوئے توان کا ٹھکانا آ گ ہے، جب کبھی اس میں سے نکلنا چاہیں
گے تو پھر اسی میں پھیر دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا:
اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلاتے تھے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ
كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ
مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(جاثیہ:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیا جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اورجنہوں نے
اچھے کام کئے (کیا) ان کی زندگی اور موت برابر ہوگی؟ وہ کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ‘‘ (ص:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا ہم
ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد
پھیلانے والوں کی طرح کر دیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں
جیسا کردیں گے؟
راہِ خدا میں مال خرچ کرنے ،حرام کاموں سے
بچنے اور دین ِاسلام کو سچا ماننے کے فضائل:
آیت نمبر5اور 6 میں تین نیک
کاموں کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا، (1)اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال
خرچ کرنا، (2)ممنوع و حرام کاموں سے بچنا ، (3) دین ِاسلام کو سچا ماننا۔اس
مناسبت سے یہاں ان نیک کاموں کے فضائل ملاحظہ ہوں ،چنانچہ راہِ خدا
میں خرچ کرنے کے حوالے سے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ
سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ
وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘(بقرہ:۲۶۱)
ترجمہ کنزُالعِرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے
مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں
اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں ،ہر بالی میں
سو دانے ہیں اور اللّٰہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللّٰہ وسعت والا، علم والا ہے۔
اور ممنوع و حرام کاموں سے بچنے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ
سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا‘‘(النساء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو
ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں
گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۙ-لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ
اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ(۳۱)اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ
كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ
الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ
اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا
اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى‘‘(نجم:۳۱،۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،تا کہ
برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو
نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے۔وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے
ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع
ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم
اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل (کی صورت میں ) تھے تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے جو
پرہیزگار ہوا۔
اور دین ِاسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ‘‘(ال عمران:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ
لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ
اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا‘‘(النساء:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اُس سے بہتر کس کا دین جس نے
اپنا چہرہ اللّٰہ کے لئے جھکا دیا اور وہ نیکی
کرنے والاہو اور وہ ابراہیم کے دین کا پیروکار ہو جو ہر
باطل سے جدا تھے اور اللّٰہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست
بنالیا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا
النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۷)
ترجمہٌ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان
لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی
کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ
یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴) وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ
رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ‘‘(زمر:۵۴،۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرواور اس
وقت سے پہلے اس کے حضور گردن رکھو کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔
اورتمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے
پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر (بھی) نہ ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ
میں مال خرچ کرنے ،حرام و ناجائز اور ممنوع کاموں سے بچنے کی اور دین
ِاسلام پر اِستقامت کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
بخل کرنے ،آخرت سے بے پرواہ بننے اور دینِ اسلام کو
جھٹلانے کی وعیدیں :
آیت نمبر8اور 9 میں اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال
خرچ کرنے میں بخل کرنے والے،ثواب اور آخرت سے بے پرواہ بننے والے اور دینِ
اسلام کو جھٹلانے والے کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے۔اس مناسبت سے یہاں
ان برے کاموں سے متعلق چند وعیدیں ملاحظہ ہوں ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ
کرنے سے بخل کرنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ
اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ
نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا
یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ‘‘ (محمد:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں ہاں یہ تم ہو جو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرو تو
تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے
اور اللّٰہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ
پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ
یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ
شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(اٰل عمران:۱۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللّٰہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ
ہرگز اسےاپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب
قیامت کے دن ان کے گلوں میں اسی مال کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس
میں انہوں نے بخل کیا تھا اور اللّٰہ ہی آسمانوں اور زمین کاوارث ہے اور اللّٰہ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے۔
اور اللّٰہ تعالیٰ کے ثواب اور آخرت سے بے
پرواہ بننے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤىۙ(۶) اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىؕ(۷) اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى‘‘(العلق:۶۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں ہاں ، بیشک آدمی ضرور سرکشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ اپنے آپ کو غنی
سمجھ لیا۔بیشک تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ
اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ
اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں
ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ
کم نہ دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ
نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور
ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور دین ِاسلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ
هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘(ال عمران:۸۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ
اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں
سے ہوگا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ
الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ
الظّٰلِمِیْنَ‘‘(صف:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون
جو اللّٰہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ اسے اسلام کی
طرف بلایا جاتا ہو اور اللّٰہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے
سے بچنے ،اپنی آخرت کی پرواہ اور فکر کرنے اور دینِ اسلام کو مانتے رہنے کی توفیق
عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.