Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Maidah Ayat 3 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(112) | Tarteeb e Tilawat:(5) | Mushtamil e Para:(06-07) | Total Aayaat:(120) |
Total Ruku:(16) | Total Words:(3166) | Total Letters:(12028) |
{حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ: تم پر حرام کردیا گیا ہے۔} سورت کی پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ تم پر چوپائے حلال ہیں سوائے ان چوپایوں کے جو آگے بیان کئے جائیں گے۔ یہاں انہیں کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر کیا گیا ہے:
(1)… مردار یعنی جس جانور کے لیے شریعت میں ذبح کا حکم ہو اور وہ بے ذبح مرجائے ۔
(2)…بہنے والا خون۔
(3)… سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء۔
(4)…وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نا م پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسا کہ عبداللہ کی گائے، عقیقے کا بکرا ،ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو اُن کو ذبح کے وقت کے علاوہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح اُن کا فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ہو، اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیّب ہیں۔اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو ،جو لوگ ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام معتبرتفاسیراور خود مفہومِ قرآن کے خلاف ہے۔
(5)… گلا گھونٹ کر مارا ہو ا جانور۔
(6)…وہ جانور جو لاٹھی پتھر ،ڈھیلے، گولی چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو۔
(7)…جو گر کر مرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں۔
(8)…وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو۔
(9)…وہ جسے کسی درندہ نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مرگیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور ایسے واقعات کے بعد زندہ بچ گئے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذبح کرلو تو وہ حلال ہیں۔
(10)…وہ جوکسی بت کے تھان پر بطورِ عبادت کے ذبح کیا گیا ہو جیسا کہ اہلِ جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ پتھر نَصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لیے ذبح کرتے تھے اور اس ذبح سے اُن کی تعظیم و تقرب کی نیت کرتے تھے ۔اس صورت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ بطورِ خاص ان میں رائج تھا۔
(11)… کسی کام وغیرہ کا حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا ،زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو’’ہاں ‘‘یا ’’نہ‘‘ نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الٰہی جانتے ۔ان سب کی ممانعت فرمائی گئی۔
{اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا۔} تکمیلِ دین سے متعلق یہ آیتِ مبارکہ حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز، جمعہ کے دن ،عصر کے بعد نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قِیاس کے قانون سب مکمل کردیئے ،اسی لئے اس آیت کے نزول کے بعد بیانِ حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ ’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ‘‘ نازل ہوئی جووعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہوسکا ۔ایک قول یہ ہے کہ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی، ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یعنی مکمل کرنایہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۴۶۴)
دینی کامیابی کے دن خوشی منانا جائز ہے
اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کےپاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ’’اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ‘‘ پڑھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵، مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۰۹، الحدیث: ۵(۳۰۱۷))
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے۔ نیز ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں ، جمعہ اور عرفہ۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمر اور عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سب سے عظیم نعمت کی یادگار و شکر گزاری ہے۔
{وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ: اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔} مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ مکہ مکرمہ کی فتح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت تھی۔
{وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا:اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔} یعنی میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کرلیا کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں۔
آیت ’’وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے کئی احکام معلوم ہوئے:
پہلا یہ کہ صرف اسلام اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند ہے یعنی جو اَب دین محمدی کی صورت میں ہے، باقی سب دین اب ناقابلِ قبول ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک اسلام کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔
تیسرا یہ کہ اصولِ دین میں زیادتی کمی نہیں ہو سکتی۔ اجتہادی فروعی مسئلے ہمیشہ نکلتے رہیں گے۔
چوتھا یہ کہ سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ دین کامل ہو چکا، سورج نکل آنے پر چراغ کی ضرورت نہیں ، لہٰذا قادیانی جھوٹے ،بے دین اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے کلام اور دین کو ناقص سمجھنے والے ہیں۔
پانچواں یہ کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی لاکھوں نیکیاں کرے خدا عَزَّوَجَلَّ کو پیارا نہیں کیونکہ اسلام جڑ ہے اور اعمال شاخیں اور پتے اور جڑ کٹ جانے کے بعد شاخوں اور پتوں کو پانی دینا بے کار ہے۔
{فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ: تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہو۔} اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کردیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز مُیَسَّر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے بقدرِ ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہوجاتی ہے جس سے خطرۂ جان جاتا رہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.