Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Maidah Ayat 64 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(112) | Tarteeb e Tilawat:(5) | Mushtamil e Para:(06-07) | Total Aayaat:(120) |
Total Ruku:(16) | Total Words:(3166) | Total Letters:(12028) |
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ: اور یہودیوں نے کہا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہودی بہت خوش حال اور نہایت دولت مند تھے۔ جب انہوں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب و مخالفت کی تو اُن کی روزی کم ہوگئی۔ اس وقت فنحاص یہودی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بندھا ہے یعنی مَعَاذَاللہ وہ رزق دینے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے ۔اُس کے اِس قول پر کسی یہودی نے منع نہ کیا بلکہ راضی رہے، اسی لئے یہ سب کا مَقولہ قرار دیا گیا اور یہ آیت اُن کے بارے میں نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۰۹، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۹۳)
اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تو جواد و کریم ہے ، ہاں ان یہودیوں کے ہاتھ باندھے جائیں۔اِس ارشاد کا یہ اثر ہوا کہ یہودی دنیا میں سب سے زیادہ بخیل ہوگئے یا اِس جملے کا یہ معنیٰ ہے کہ اُن کی اس بے ہودہ گوئی اور گستاخی کی سزا میں اُن کے ہاتھ جہنم میں باندھے جائیں اور اس طرح انہیں آتش دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہونے سے مراد بے حد کرم اور مہربانی ہے کہ دوستوں کو بھی نوازے اور دشمنوں کو بھی محروم نہ کرے ورنہ اللہ تعالیٰ جسمانی ہاتھ اور ہاتھ کے کھلنے سے پاک ہے۔ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے موافق جیسے اور جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اس میں کسی کواعتراض کرنے کی مجال نہیں۔ وہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب کرتا ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس کے خزانے میں کچھ کمی یا کرم میں کچھ نقصان ہے بلکہ بندوں کے حالات کا تقاضا ہی یہ ہے اور اس میں ہزارہا مصلحتیں ہیں۔
{وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ: اورضرور ان میں سے بہت سے لوگوں (کی سرکشی اور کفر) میں اضافہ کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ جتنا قرآنِ پاک اُترتا جائے گا اتنا ہی یہودیوں کا حسد و عِناد بڑھتا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ کفرو سرکشی میں بڑھتے رہیں گے جیسے مُقَوِّی غذا کمزور معدے والے کو بیمار کر دیتی ہے، اس میں غذا کا قصور نہیں بلکہ مریض کے معدے کا قصور ہے یا جیسے سورج کی روشنی چمگادڑ کو اندھا کر دیتی ہے تو اس میں سورج کا نہیں بلکہ چمگادڑ کی آنکھ کا قصور ہے۔
آیت ’’وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس سے دو چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… جس کے دل میں سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت نہ ہو اس کے لئے قرآن و حدیث کفر کی زیادتی کا سبب ہیں جیسے آج کل بہت سے بے دینوں کو دیکھا جارہا ہے۔یاد رہے کہ دین کی عظمت ،دین لانے والے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت سے ہے۔
(2)… کفر میں زیادتی کمی ہوتی ہے یعنی کوئی کم شدید کافر ہوتا ہے اور کوئی زیادہ شدید۔ کمی زیادتی کسی مقدار کے اعتبار سے نہیں ہوتی، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یعنی کوئی زیادہ مضبوط ایمان والا اور کوئی کمزور ایمان والا ہوتا ہے۔
{وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: اور ہم نے قیامت تک ان میں دشمنی اور بغض ڈال دیا ۔} یعنی وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے اور اُن کے دِل کبھی نہ ملیں گے اگرچہ اوپر سے کبھی کبھار مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔
{كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ: جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔} جب بھی یہودیوں نے فساد ،شر انگیزی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی ایسے شخص کو ان پر مُسَلَّط کر دیا جس نے انہیں ہلاکت اور بربادی سے دوچار کردیا، پہلے جب انہوں نے فتنہ و فساد شروع کیا اور تورات کے احکام کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان کی طرف بھیج دیا جس نے ان کو تباہ کر کے رکھ دیا، کچھ عرصے بعد پھر جب انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب انہوں شر انگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کردیا، پھر کچھ عرصے بعد جب فساد کا بازار گرم کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر تَسلُّط اور غلبہ عطا فرمادیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۱۰-۵۱۱)
ایک قول یہ ہے کہ جب بھی یہودی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف جنگ کاا رادہ کرتے ہوئے اس کے اسباب تیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منصوبے ناکام بنا دے گا۔ (ابوسعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۶۶)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.