Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Mujadilah Ayat 1 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(105) | Tarteeb e Tilawat:(58) | Mushtamil e Para:(28) | Total Aayaat:(22) |
Total Ruku:(3) | Total Words:(526) | Total Letters:(2014) |
{قَدْ سَمِـعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا: بیشک اللّٰہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی ہے۔ } شانِ نزول: حضرت اوس بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی بات پر اپنی زوجہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے کہا: تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے۔ یہ کہنے کے بعد حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ندامت ہوئی ،یہ کلمہ زمانۂ جاہلیّت میں طلاق شمار کیا جاتا تھا ا س لئے حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زوجہ سے کہا: میرے خیال میں تو مجھ پر حرام ہوگئی ہے۔حضرت خولہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام واقعات ذکر کئے اور عرض کیا: میرا مال ختم ہوچکا ،ماں باپ وفات پاگئے، عمر زیادہ ہوگئی اوربچے چھوٹے چھوٹے ہیں ،اگر انہیں ان کے باپ کے پاس چھوڑ وں تو ہلاک ہوجائیں گے اور اپنے ساتھ رکھوں تو بھوکے مرجائیں گے،اب ایسی کیا صورت ہے کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان جدائی نہ ہو۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیرے بارے میں میرے پاس کوئی حکم نہیں ، یعنی ابھی تک ظہار کے متعلق کوئی جدید حکم نازل نہیں ہوا اور پرانا دستور یہی ہے کہ ظہار سے عورت حرام ہوجاتی ہے۔حضرت خولہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے طلاق کا لفظ نہیں کہا، وہ میرے بچوں کے باپ ہیں اور مجھے بہت ہی پیارے ہیں ، اسی طرح وہ بار بار عرض کرتی رہیں اورجب اپنی خواہش کے مطابق جواب نہ پایا تو آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کہنے لگی: یا اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے اپنی محتاجی ، بے کَسی اور پریشان حالی کی شکایت کرتی ہوں ، اپنے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے حق میں ایسا حکم نازل فرماجس سے میری مصیبت دورہو جائے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا اور دیکھ ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرئہ مبارک پر وحی کے آثار ظاہر ہیں ۔ جب وحی پوری ہوگئی تو ارشاد فرمایا: ’’ اپنے شوہر کو بلا ؤ۔حضرت اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے حال،فاقے اور تنہائی کے شدید ہونے کی شکایت کرتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ تم دونوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو سن رہا ہے، بیشک جو اللّٰہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور اس کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے تواللّٰہ تعالیٰ اس کی مناجات کو سننے والا اور شکایت ُکنِندہ کو دیکھنے والاہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۳۵، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۱۵، ملتقطاً)
نوٹ:خیال رہے کہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کاسرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بحث وتکرارکرنامخالفت یامقابلہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ کرم طلب کرنے کے لیے تھا اوراس سے اپنے دکھ درد کا اظہار مقصود تھا اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت چونکہ آپ کی باندی غلام ہیں اس لئے کرم طلب کرنے کے لئے آپ سے عرض و معروض کر سکتے ہیں ،نیز یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہرشکایت کرنی بری نہیں بلکہ بے صبری والی شکایت کرنابراہے ۔
حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا احترام:
حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو حاصل ہونے والی اس خصوصیت کی وجہ سے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کابہت احترام کیاکرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمرفارو ق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دورِ خلافت میں ایک بار حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس سے گزرے،اس وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ درازگوش پرسوارتھے اورلوگوں کاایک ہجوم ساتھ تھا۔حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ان کوروک لیااورنصیحت کرتے ہوئے کہا:اے عمر! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ،وہ دن تجھے یاد ہیں جب تمہیں عمیرکہاجاتاتھا،پھرعمرکہاجانے لگااوراب تمہیں لوگ امیرالمومنین کہنے لگے ہیں ،تو اے عمر! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،جوشخص موت پریقین رکھتاہے اسے اندیشہ رہتاہے کہ کوئی ضروری چیز رہ نہ جائے اورجسے حساب کایقین ہوتاہے وہ عذاب سے ڈرتاہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر ان کی نصیحت کوسنتے رہے اورجب کافی وقت گزرگیاتولوگوں نے عرض کی: اے امیرالمومنین !اس بڑھیاکے لیے آپ اتنی دیرکھڑے رہیں گے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: خدا کی قسم !اگریہ مجھے صبح سے شام تک روک کر رکھے تومیں کھڑارہوں گا اورصرف نماز کے وقت میں رخصت لوں گا،کیاتم جانتے نہیں کہ یہ بوڑھی خاتون کون ہے؟ یہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہے جس کی فریاد کو اللّٰہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپرسنا،کیایہ ہوسکتاہے کہ ربُّ العالَمین تواس کی بات سنے اورعمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہ سنے؟( قرطبی، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۱۹۷، الجزء السابع عشر)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.