Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Mujadilah Ayat 22 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(105) | Tarteeb e Tilawat:(58) | Mushtamil e Para:(28) | Total Aayaat:(22) |
Total Ruku:(3) | Total Words:(526) | Total Letters:(2014) |
{لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللّٰہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں ۔} کافروں سے دوستی کرنے کے بارے میں منافقوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے مخلص ایمان والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مخالفت کی،یعنی ان سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اوران کا ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کرے اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللّٰہ تعالیٰ ان کے ایمان، اخلاص اور طاعت کے سبب ان سے راضی ہوا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اور ا س کے کرم سے راضی ہوئے، یہ اللّٰہ تعالیٰ کی جماعت ہے، سن لو! اللّٰہ تعالیٰ کی جماعت ہی کامیاب ہے کہ یہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور جنت کی عظیم الشّان دائمی نعمتیں ہمیشہ کے لئے پائیں گے ۔
مسلمان اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گستاخوں سے دوستی نہیں کر سکتا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بددینوں ، بدمذہبوں ،اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں سے قلبی محبت ، دوستی اور میل جول جائز نہیں اور یہ بھی معلوم ہواکہ کافروں سے دوستی کرنا مسلمان کی شان اور اس کے ایمان کے تقاضوں کے بر خلاف ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت ِکریمہ میں صاف فرمادیا کہ جو اللّٰہ یا رسول کی جناب میں گستاخی کرے،مسلمان اُس سے دوستی نہ کرے گا ، جس کا صریح مفاد ہوا کہ جو اس سے دوستی کرے گا وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اس حکم کا قطعاً عام ہونا بالتَّصریح ارشاد فرمایا کہ باپ، بیٹے ،بھائی ،عزیز سب کوگِنا یا، یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں مُعَظَّم یا کیسا ہی تمہیں بالطَّبع محبوب ہو، ایمان ہے تو گستاخی کے بعد اس سے محبت نہیں رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ مَولٰی سُبْحَانَـہٗ وَ تَعَالٰی کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھا مگردیکھو وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں کا لالچ دلاتا ہے کہ اگر اللّٰہ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا کسی سے علاقہ نہ رکھا تو تمہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ایمان نقش کردے گا جس میں اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی حسن ِخاتمہ کی بشارتِ جلیلہ ہے کہ اللّٰہ کا لکھا نہیں مٹتا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ روح القدس سے تمہاری مددفرمائے گا۔
(3)…تمہیں ہمیشگی کی جنتوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
(4)…تم خدا کے گروہ کہلاؤگے ، خدا والے ہوجاؤگے۔
(5)…منہ مانگی مرادیں پاؤگے بلکہ امید و خیال و گمان سے کروڑوں درجے افزوں ۔
(6)…سب سے زیادہ یہ کہ اللّٰہ تم سے راضی ہوگا۔
(7)…یہ کہ فرماتاہے ’’میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی ،بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی ۔
مسلمانو!خدا لگتی کہنا اگر آدمی کروڑجانیں رکھتا ہو اوروہ سب کی سب ان عظیم دولتوں پر نثار کردے تووَاللّٰہ کہ مفت پائیں ، پھرزیدوعمرو سے علاقۂ تعظیم و محبت،یک لخت قطع کردینا کتنی بڑی بات ہے؟ جس پر اللّٰہ تعالیٰ ان بے بہا نعمتوں کا وعدہ فرمارہاہے اور اس کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تمہید ایمان بآیات قرآن، ۳۰ / ۳۱۲)
اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا کردار:
اس آیت میں مخلص ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان ہواکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی نہیں کرتے اگرچہ وہ ان کے کیسے ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہوں ،چنانچہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر کے دکھایاکہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کے مقابلے میں رشتے داری کا کوئی لحاظ نہیں ، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ ِاُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ ِبدرکے دن اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو لڑائی کیلئے طلب کیا لیکن رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی۔حضرت مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا ۔ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جنگ ِبدرکے دن قتل کیا۔حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ، حضرت حمزہ اور حضرت ابوعبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جوان کے رشتہ دار تھے۔(بغوی، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۸۵)
اس آیت سے ان لوگوں کودرسِ عبرت حاصل کرناچاہیے جواپنے دُنْیَوی مفادات کی خاطر صلحِ کُلیّت کے قائل ہوتے ہیں اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں نبھاتے ہیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.