Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Muminun Ayat 2 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(74) | Tarteeb e Tilawat:(23) | Mushtamil e Para:(18) | Total Aayaat:(118) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(1162) | Total Letters:(4401) |
{خٰشِعُوْنَ: خشوع و خضوع کرنے والے۔} یہاں سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)
نماز میں ظاہری و باطنی خشوع:
نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۱۳۵۶، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۲۰، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)یہاں نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھانے،اِدھر اُدھر دیکھنے اور یہاں وہاں توجہ کرنے سے متعلق 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنی نماز میں نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں!پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں بہت سختی کی اور ارشاد فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں چھین لی جائیں گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۵۰)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے بیٹے!نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۸۹)
(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نماز میں اِدھر اُدھر توجہ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا’’یہ شیطانی لغزش ہے،اس کے ذریعے شیطان بندے کو نماز سے پھسلانا چاہتا ہے۔( ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۹۰)
لہٰذا ہر مسلمان مرد وعورت کو چاہئے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز اداکرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔
خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی فضیلت اور دو واقعات:
حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان شخص پر فرض نماز کاوقت آ جائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء والصلاۃ عقبہ، ص۱۴۲، الحدیث: ۷(۲۲۸))
اگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مْ کی سیر ت کا مطالعہ کیا جائے تو بکثرت ایسے واقعات مل جائیں گے کہ جو اس آیت میں مذکور وصف کے اعلیٰ نمونے ہوں گے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے، اپنی نظریں سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں یہ یقین ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے تھے۔(در منثور، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۸۴)
حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’غزوہ ذاتُ الرقاع میں ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مشرک کی بیوی کو گرفتار کیا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے کسی صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے خون سے زمین کو رنگین نہ کرلوں گا، چین نہ لوں گا،چنانچہ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہ سے واپس ہوئے تواس نے تَعاقُب کیا۔ جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جگہ قیام کیا تو دریافت فرمایا کہ کون میرا پہرہ دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے گا۔ مہاجرین وانصار دونوں میں سے ایک ایک بہادر اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے اٹھے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ گھاٹی کے دہانے پر جاکر پہرہ دو۔ دونوں صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا وہاں پہنچے تو مہاجر صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سوگئے اور انصاری صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مشرک آیا اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اور نگہبان ہیں ، چنانچہ اس نے تین تیر مارے اور تینوں کے تینوں ان انصاری صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے جسم میں پیوست ہوگئے لیکن وہ اسی طرح رکوع اور سجدہ کرتے رہے۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب الوضو ء من الدم، ۱ / ۹۹، الحدیث: ۱۹۸)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.