Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Qalam Ayat 45 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(2) | Tarteeb e Tilawat:(68) | Mushtamil e Para:(29) | Total Aayaat:(52) |
Total Ruku:(2) | Total Words:(326) | Total Letters:(1271) |
{وَ اُمْلِیْ لَهُمْ: اور میں انہیں ڈھیل دوں گا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ میں ان کفار کو ان کی موت آنے تک ڈھیل دوں گا ا س لئے انہیں جلد سزا نہیں دوں گا ، بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ میں ان کفار کو لمبی عمر عطا کر کے اور ان کی موت میں تاخیر کر کے انہیں ڈھیل دوں گا تاکہ وہ اور گناہ کر لیں لیکن وہ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کی عمر لمبی ہونا ان کے حق میں بہتر ہے،بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۳۰۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۰ / ۱۲۵، ملتقطاً)
کافروں کو لمبی عمر ملنے کی حقیقت اور مسلمانوں کے لئے نصیحت:
کافروں کو لمبی عمر ملنے اور مہلت دئیے جانے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘(ال عمران:۱۷۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم توصرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ(۱۸۲) وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ‘‘(اعراف:۱۸۲۔۱۸۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳) اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ‘‘(کہف:۱۰۳،۱۰۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں ؟وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے ،گناہوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی گرفت ،اپنے نیک اعمال ضائع ہو جانے اور برا خاتمہ ہونے پر خوفزدہ رہے۔اللّٰہ تعالیٰ اپنی خفیہ تدبیر سے متعلق ارشاد فرتا ہے: ’’اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَؕ(۹۷) اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸)اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۷۔۹۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سورہے ہوں ۔ یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔ کیا وہ اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
اورحضرت بلال بن سعید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اے لوگو!اللّٰہ تعالیٰ سے حیاء کیاکرو،اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو،اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہو جاؤ اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸۰، الحدیث: ۷۷۰)
اورامام بیہقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اس قدر خوفزدہ نہیں ہو جانا چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائے اور بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اتنی امید بھی نہیں لگا لینی چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہی بے خوف ہو جائے یا اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر بے باک ہو جائے۔( شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲، تحت الحدیث: ۱۰۵۸)
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسے عظیم حضرات اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بہت خوف زدہ رہا کرتے تھے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سنا کہ وہ اپنے آپ کو مُخا طَب کر کے فرما رہے تھے:’’واہ واہ! (اے) عمر بن خطاب (تو) مسلمانوں کا امیر (بن چکا) ہے۔ خدا کی قسم !تم اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ورنہ وہ تمہیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔( مؤطا امام مالک، کتاب الکلام، باب ما جاء فی التقی، ۲ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۹۱۸)
جب بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا پروانہ حاصل کر لینے والے قطعی جنتی حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کے معاملے میں یہ حال ہے تو ہم جیسے لوگوں کو خود ہی غور کر لینا چاہئے کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے کس قدر ڈرنا چاہئے۔حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے تھے: ’’ہم نے لوگوں کو ا س طرح پایا کہ ان کے اچھے اعمال پہاڑوں کی طرح ہیں لیکن ا س کے باوجود وہ دھوکے میں نہیں ہیں اور تم لوگوں کے پاس کوئی عمل نہیں اور تم دھوکے میں مبتلا ہو،اللّٰہ کی قسم!ہماری باتیں زاہدوں کی باتوں جیسی ہیں اور ہمارے اَعمال مُتکبِّرین اور منافقین کے اعمال جیسے ہیں ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاول، ومن اخلاقہم رضی اللّٰہ عنہم کثرۃ خوفہم من اللّٰہ تعالی فی حال بدایتہم۔۔۔ الخ ص۴۹) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے ہر دم خوف زدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.