Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Qalam Ayat 9 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(2) | Tarteeb e Tilawat:(68) | Mushtamil e Para:(29) | Total Aayaat:(52) |
Total Ruku:(2) | Total Words:(326) | Total Letters:(1271) |
{فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ: تو تم جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ پر یہ سب واضح ہو چکا ہو تو آپ اُن کی اِس بات کونہ ماننے پر ثابت قدم رہیں کہ آپ انہیں (شرک سے روکنے اوربتوں کی مذمت کرنے سے) باز آجائیں تاکہ ہم بھی آپ کی (مخالفت کرنے سے) باز آجائیں ،کیونکہ ان مشرکین کی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ آپ اپنے دین میں ان کے لئے اس طرح نرمی کرلیں کہ آپ ان کی بات مان کر ان کے بتوں کی پوجا کر لیں تو وہ بھی آپ کی بات مان کر آپ کے رب تعالیٰ کی عبادت کے معاملے میں نرمی کر لیں گے۔( روح البیان،ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۵ / ۷۵۳، تفسیر طبری، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ملتقطاً)
{وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ: انہوں نے تو یہی خواہش رکھی کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں ۔} مُداہَنَت یہ ہے کہ اپنی دنیا کی خاطر دین کے احکام میں خلافِ شرع نرمی برتنا جیسے لالچ کی وجہ سے یا کسی کے مرتبے کی رعایت کرتے ہوئے اسے برائی سے منع نہ کرنا یا منع کرنے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں اس کی برائی کو دل میں برا نہ جاننا اور مدارات یہ ہے کہ دین یا دنیا کی بہتری کے لئے کسی کے ساتھ دُنْیَوی معاملات سر انجام دینا جیسے کسی فاسق و گناہگار شخص کے گناہ کو دل میں برا جانتے ہوئے اس کے شر سے بچنے کے لئے یا اس نیت سے اس کے ساتھ نرم لہجے سے گفتگو کرنا اور خوش روئی سے پیش آنا کہ یہ اچھے اَخلاق سے مُتأثّر ہو کر گناہوں سے باز آ جائے گا۔
ہر مسلمان کو دین کے معاملے میں پختہ ہونا چاہئے:
لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے دین کے معاملے میں پختہ ہو نا چاہیے اور دین کے معاملات میں کسی طرح کی نرمی اور رعایت سے کام نہیں لینا چاہئے لیکن افسوس کہ آج کل مسلمان اپنے نفسانی معاملات میں تو انتہائی سختی سے کام لیتے ہیں اور کسی طرح کی رعایت کرنے پر تیار نہیں ہوتے جبکہ دین کے معاملے میں بہت نرم اور پِلپِلے نظر آتے ہیں ،کسی کو برائی کرتے ہوئے،اسلام کے احکامات کوپامال کرتے ہوئے اور اسلام کے احکامات کا مذاق اُڑاتے ہوئے دیکھ کر، اسے روکنے پر قادر ہونے کے باوجوداس کی رعایت کرتے ہوئے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسے نہیں روکتے اور جب کسی سے اپنی ذات کو تکلیف پہنچے یاان کا کوئی نقصان کر بیٹھے تو خوب شور مچاتے ہیں اور بعض مسلمان کہلانے والے تو ایسے ہیں کہ یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کفار سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کرتے ، ان کی خاطراسلام کے بعض احکامات پر عمل کرنا چھوڑتے ، ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کی مذہبی رسومات کا اہتمام کرتے ، ان کے ہاں ان کی مذہبی رسومات میں شرکت کرتے ،انہیں مساجد میں بلوا کراور مسلمانوں سے اونچا بٹھا کر مسلمانوں کو ان کی تقریریں سنواتے اور ان سے اتحاد اور یگانگت کرنے کی کوششیں کرتے اوردیگر مسلمانوں کو اس کی ترغیب دینے کے لئے باقاعدہ پروگرام منعقد کرتے ہیں حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار و مشرکین سے دوستی کرنے اوران سے محبت کا رشتہ اُستوار کرنے سے منع کیا اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور کفار سے دوستی اور محبت کرنے کو منافقوں کی خصلت بتایا ہے، چنانچہ منافقوں کی اس خصلت کو بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًاۙ-وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ‘‘(حشر:۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا کہ اپنے اہلِ کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ قسم ہے اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور ہرگز تمہارے بارے میں کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللّٰہ گواہی دیتاہے کہ یقینا وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔
اور مسلمانوں سے ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘(مائدہ:۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنالیا ہے انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللّٰہ سے ڈرتے رہو۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا‘‘(النساء:۱۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللّٰہ کے لئے صریح حجت قائم کرلو۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(توبہ:۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کوپسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللّٰہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللّٰہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللّٰہ ہی کی طرفلوٹنا ہے۔
اور کفار سے دوستی کرنے والے منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۳۸،۱۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللّٰہ ہے۔
اور برائی ہوتی دیکھ کر اس سے نہ روکنے والوں کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللّٰہ تعالیٰ کی حدود میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلاء ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا،نیچے والوں کو پانی کے لئے اوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا،اوپر والوں (کو نیچے والوں کے پانی لے کر گزرنے کی وجہ سے اَذِیَّت پہنچی اور انہوں ) نے اسے زحمت شمار کیا تو نیچے والوں (میں سے ایک شخص) نے کلہاڑہ لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا،اوپر والے اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا:میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر گزارا نہیں (اس لئے میں کشتی میں سوراخ کر رہا ہوں تاکہ مجھے پانی حاصل ہو جائے اور تمہاری تکلیف دور ہوجائے) پس اگر انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے (ڈوبنے سے) بچا لیا اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیا (اور سوراخ کرنے سے منع نہیں کیا) تو اسے ہلاک کر یں گے اور اپنی جانوں کو ہلاک کر بیٹھیں گے۔( بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)
اورحضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب تم پر ایسے بادشاہ مُسلَّط ہوں گے جن سے تم نیکی بھی دیکھو گے اور برائی بھی،تو جس نے ان کی برائی کو بُرا کہا وہ بَری ہوا اور جس نے (ان کی بُرائی کو برا کہنے کی قدرت نہ رکھنے وجہ سے اس برائی کو دل سے) برا سمجھاوہ بھی (ان کی برائی میں شریک ہونے کے وبال سے) سلامت رہا البتہ جو (دل سے ان کی برائی پر) راضی ہوا اور اس نے (ان کی) پیروی کی تو وہ ہلاک ہوا۔( ترمذی، کتاب الفتن، ۷۸-باب، ۴ / ۱۱۷، الحدیث: ۲۲۷۲)
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے دین پر پختگی اور اس کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:کفار و مشرکین سے تعلقات رکھنے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14میں موجود اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَہْ فِیْ آیَۃِ الْمُمْتَحِنَہْ ‘‘ (غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کی شرعی حدود کا تفصیلی بیان) کا مطالعہ فرمائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.