Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Qamar Ayat 41 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(37) | Tarteeb e Tilawat:(54) | Mushtamil e Para:(27) | Total Aayaat:(55) |
Total Ruku:(3) | Total Words:(382) | Total Letters:(1460) |
{ وَ لَقَدْ جَآءَ: اور بیشک آئے۔} یہاں سے فرعون اور ا س کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک فرعونیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آئے تو فرعونی اُن پر ایمان نہ لائے اورانہوں نے ہماری ان سب نشانیوں کو جھٹلادیا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دی گئیں تھیں تو ہم نے اس جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب کے ساتھ ایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت ہوتی ہے کہ قدرت والے کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۹ / ۲۸۱-۲۸۲، ملخصاً)
{ فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ: تو ہم نے ان پرایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت کی شان ہوتی ہے۔} سابقہ امتوں نے جب اللہتعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے ،اس کے رسول کو جھٹلا کر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مصروف رہ کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب سے ڈرانے کے فرمان آنے اور مہلت ملنے کے باوجود اپنی حالت کو نہ سدھارا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سخت گرفت فرمائی اورسابقہ امتوں کی تباہی و بربادی کے واقعات سنانے سے مقصود اس امت کے لوگوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے بھی ان جیسے اعمال اختیار کئے، اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو پسِ پُشت ڈالا تو ان کی بھی بڑی سخت گرفت ہو سکتی ہے ۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ‘‘(ہود:۱۰۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اس میں اُس کیلئے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے۔ وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہے جس میں ساری مخلوق موجود ہوگی۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
’’ وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذٰلک اخذ ربّک ...الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)
لہٰذا اس امت کے ہر ایک فرد کو ان آیات میں غور کرنا چاہئے اور ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی سے بچے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ رہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.