Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Taubah Ayat 30 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(113) | Tarteeb e Tilawat:(9) | Mushtamil e Para:(10-11) | Total Aayaat:(129) |
Total Ruku:(16) | Total Words:(2852) | Total Letters:(10990) |
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔} امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)
{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔} یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)
{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔} اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.