Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Waqiah Ayat 45 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(46) | Tarteeb e Tilawat:(56) | Mushtamil e Para:(27) | Total Aayaat:(96) |
Total Ruku:(3) | Total Words:(428) | Total Letters:(1723) |
{ اِنَّهُمْ : بیشک وہ۔} یہاں سے بائیں جانب والوں کے عذاب کا مستحق ہونے کا سبب بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک بائیں جانب والے اس عذاب سے پہلے دنیاکے اندر کھانے پینے، اچھی رہائش اور خوبصورت مقامات وغیرہ نعمتوں سے خوشحال تھے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں مُنہمِک تھے اور وہ شرک جیسے بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے اور وہ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ سرکشی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتے تھے: کیا جب ہم مرجائیں گے اور ہماری کھال اور گوشت مٹی میں مل جائے گی اور ہم ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ضرور ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟ یاکیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟
یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اس سے پہلے اہلِ جنت کے دو گروہوں کے حالات بیان ہوئے تو ان کے جنت کامستحق ہونے کی وجہ بیان نہیں کی گئی جبکہ اہلِ جہنم کے گروہ کے حالات بیان کرتے وقت ان کے جہنمی ہونے کی وجہ بیان کی گئی، اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ اہلِ جنت اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے انہیں جنت کا داخلہ نصیب ہو اہے اور اہلِ جہنم اللہ تعالیٰ کے عدل کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے ہیں ۔ (روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۹ / ۳۲۸-۳۲۹)
گناہوں پر اِصرار کا انجام :
آیت نمبر 46میں بائیں جانب والوں کے جہنم کے عذاب کا حق دار ہونے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے ،اس سے معلوم ہو ا کہ گناہ پر اِصرارایسی خطرناک چیز ہے جس کے انجام کے طور پر بندے کا ایمان مکمل طور پر سَلب ہو سکتا اور اس کا خاتمہ کفر کی حالت میں ہو سکتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گناہوں پر اِصرار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو گناہوں پر ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں ۔(مسند امام احمد، مسند المکثّرین، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما،۲ / ۵۶۵،الحدیث:۶۵۵۲)
اور حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’گناہوں پر اِصرار بہت سے گناہگار مسلمانوں کو کفر پر موت کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۵۱)
مزید فرماتے ہیں :شیطان گناہوں پر اِصرار کے ساتھ تمہیں مغفرت کی امید دلاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم جو چاہے عمل کرو،بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے ،وہ تمہارے سارے گناہ بخش دے گاکیونکہ وہ تمہاری عبادت اور تمہیں عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے سارے گناہ بخش دے، لیکن مغفرت کی توقُّع رکھتے ہوئے گناہ پر گناہ کرتے چلے جانا ایسا ہے جیسے کوئی شفا ملنے کی امید پر زہر کھانا شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ تمام کریموں سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے لیکن وہ شدید عذاب دینے والا بھی تو ہے۔( روح البیان، الملائکۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۳۱۹ )
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں پر قائم رہنا چھوڑ دے اور گزشتہ گناہوں پر سچے دل سے نادم ہو کر توبہ کر لے اور اس وقت سے ڈرے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ‘‘(النساء: ۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی (کوئی توبہ ہے)جو کفر کی حالت میں مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔
اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،ہمارے ایمان کے نور اور ہمارے عقیدے کی شمع کو زوال کی انتہائی سخت گرجتی آندھی سے محفوظ فرما اور تمام اوقات اور ہر حال میں کلمہ ِ ایمان پر ہمیں ثابت قدمی نصیب فرما،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.