Home ≫ Al-Quran ≫ Surah An Nahl Ayat 41 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(70) | Tarteeb e Tilawat:(16) | Mushtamil e Para:(14) | Total Aayaat:(128) |
Total Ruku:(16) | Total Words:(2082) | Total Letters:(7745) |
{وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ: اور جنہوں نے اللّٰہ کی
راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے۔} شانِ نزول:حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یہ
آیت رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ان صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے
حق میں نازل ہوئی جن پر اہلِ مکہ نے بہت ظلم کئے اور انہیں دین کی خاطر وطن
چھوڑنا ہی پڑا ،بعض اُن میں سے حبشہ چلے گئے پھر وہاں سے مدینہ طیبہ آئے اور بعض
مدینہ شریف ہی کو ہجرت کر گئے۔ ان کی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مدح فرمائی اور ان کے اجر کو بہت بڑا اجر
قرار دیا ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳ملخصاً)
مہاجر صحابۂ کرا م رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑی فضیلت والے ہیں اول تو یوں کہ ان کے لئےبڑے اجر کا وعدہ ہے اور دوسرا یوں کہ ان کے خالصتاً رضائے الٰہی کیلئے ہجرت کرنے کی گواہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی ہے۔ قرآنِ مجید کی اور آیات سے بھی ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ‘‘(اٰلِ عمران:۱۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے
گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کر دیے
گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹا دوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات
میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللّٰہ کی
بارگاہ سے اجر ہے اور اللّٰہ ہی کے پاس اچھا
ثواب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ
اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(توبہ:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے
مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللّٰہ کی راہ میں جہاد
کیا اللّٰہ کے نزدیک ان کا بہت
بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’لِلْفُقَرَآءِ
الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ
یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘(حشر:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان
فقیر مہاجروں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اس حال میں کہ اللّٰہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللّٰہ اور
اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی سچے ہیں ۔
اسی طرح اَحادیث سے بھی
ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل ظاہر ہیں،
چنانچہ حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم میری امت
کے اس گروہ کو جانتے ہو جوسب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا؟ میں نے عرض کی :اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مہاجرین جنت کے دروازے کے
پاس آ کر اسے کھلوانا چاہیں گے تو جنت کے خازن ان سے کہیں گے: کیا آپ سے حساب لے
لیا گیا ہے؟ وہ کہیں گے :ہم سے کس چیز کا حساب لیا جائے گا حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر تھیں حتّٰی
کہ اسی حال میں ہمارا انتقال ہو گیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں
کہ’’ان کے لئے(جنت
کا دروازہ )کھول دیاجائے گا تو وہ
دوسرے لوگوں کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے 40 سال تک جنت میں قیلولہ کریں
گے۔(مستدرک، کتاب الجہاد، اوّل زمرۃ تدخل الجنّۃ
المہاجرون، ۲ /
۳۸۷، الحدیث: ۲۴۳۶)
حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے
ہیں :ہم ایک دوسرے دن تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر تھے جب سورج طلوع ہوا۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب قیامت کے دن کچھ
لوگ آئیں گے جن کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا۔ ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’فُقراء مہاجرین جن کے صدقے
ناپسندیدہ چیزوں سے بچا جاتا ہے، ان میں سے کسی کا انتقال اس حال میں ہوتا ہے کہ
اس کی حاجت اس کے سینے میں ہی رہتی ہے(یعنی پوری نہیں ہوتی اور حاجت مند ہی فوت ہوجاتا
ہے)، وہ زمین کے کناروں سے
جمع کئے جائیں گے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ
تعالی عنہما، ۲ /
۵۹۱، الحدیث: ۶۶۶۲)
رضاءِ الٰہی کی نیت کے
بغیر نیک عمل کرنے کی فضیلت نہیں ملتی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم
ہوا کہ جو ہجرت صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی
خاطر نہ ہو اس کی کوئی فضیلت نہیں ، وہ ایسے ہے جیسے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف
منتقل ہونا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’ اَعمال نیت سے ہیں اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت
کی تو جس کی ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہو تو اس کی
ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہے اور جس
کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تواس کی ہجرت اسی
طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔(بخاری، کتاب الایمان، باب
ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)اس سے یہ بھی معلوم ہوتا
ہے کہ ہر وہ نیک عمل جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے
کی نیت نہ ہو تو اس نیک عمل کو کرنے والا اس کی فضیلت پانے سے محروم رہےگا۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کی نیت سے نیک اعمال
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
{لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی
الدُّنْیَا حَسَنَةً:ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی
جگہ دیں گے۔} اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ مروی ہے کہ حضرت عمر
فاروق رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ جب اپنے زمانۂ خلافت میں
کسی مہاجر صحابی رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو
کوئی چیز بطورِ عطیہ و نذرانہ کے دیتے تو ا س سے فرماتے ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے، اسے لے لوکیونکہ یہ وہ
ہے جس کا دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ سے
وعدہ کیا ہے اور آخرت میں جو آپ کے لئے تیار کر رکھا ہے وہ ا س سے کہیں
بہتر ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہی آیت تلاوت فرماتے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ /
۱۲۳)
مدینہ منورہ کی فضیلت:
اس آیت سے مدینہ منورہ
کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا
گیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشادفرمایا ’’مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص
بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر
ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا
شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹، الحدیث: ۴۵۹ (۱۳۶۳))
{لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ:اگر لوگ جانتے۔} اس آیت
کا ایک معنی یہ ہے کہ اگر کافر یہ بات جانتے کہ آخرت کا ثواب
ان کی پسندیدہ دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ بڑا ہے تو وہ اس کی طرف راغب
ہوتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر مہاجرین کو معلوم ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ
نے ان کے لئے آخرت میں کتنی بڑی نعمتیں تیار کی ہیں تو جو مصیبتیں اور تکلیفیں
انہیں پہنچیں ، ان پر صبر کرنے کی اور زیادہ کوشش کرتے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳)تیسرا معنی یہ ہے کہ
جو لوگ ہجرت کرنے سے رہ گئے وہ اگر جانتے کہ ہجرت کا اجر کتنا عظیم ہے تووہ بھی
ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہوتے۔(جلالین، النحل، تحت
الآیۃ: ۴۱، ص۲۱۹)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.