Home ≫ Al-Quran ≫ Surah An Nahl Ayat 90 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(70) | Tarteeb e Tilawat:(16) | Mushtamil e Para:(14) | Total Aayaat:(128) |
Total Ruku:(16) | Total Words:(2082) | Total Letters:(7745) |
{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔}عدل اور انصاف کا (عام فہم) معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیاجائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے ، اسی طرح عقائد، عبادات اور معاملات میں اِفراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کرنا بھی عدل میں داخل ہے جیسے بندہ نہ تو دہریوں کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرے اور نہ مشرکوں کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کو شریک ٹھہرانے لگے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو موجود، واحد اور لاشریک مانے، اسی طرح نہ تو یہ نظریَہ رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ مومن بندے کے کسی گناہ کا مُؤاخذہ نہیں فرمائے گا اور نہ ہی یہ عقیدہ رکھے کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ گنہگار مسلمان کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تواسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے اور کبیرہ گناہ کرنے والا مسلمان ہے، وہ اگر جہنم میں گیا تو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو گا۔ یونہی بندہ عبادات میں اس قدر مصروف نہ ہو جائے کہ اس وجہ سے بیوی بچوں ، عزیز رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دیگر لوگوں کے شرعی حقوق ہی ادا نہ کر سکے اور نہ عبادات سے اس قدر غافل ہو کہ فرائض و واجبات ہی ترک کرنا شروع کر دے بلکہ فرائض و واجبات اور سُنَن کی ادائیگی تو ضرور کرے البتہ نفلی عبادت و ریاضت اتنی کرے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کے شرعی حقوق بھی آسانی کے ساتھ ادا کر سکے ، ایسے ہی سخاوت کرنا بہت عمدہ فعل ہے لیکن یہ نہ اتنی کم ہو کہ بندہ بخل کے دائرے میں داخل ہوجائے اور نہ ہی اتنی زیادہ ہو کہ وہ فضول خرچی میں شامل ہو جائے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہو۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۷۰-۷۱، ملخصاً)
مفسرین نے عدل اور احسان کے اور معنی بھی بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ عدل یہ ہے کہ آدمی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کی گواہی دے اور احسان فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے۔
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہی سے ایک اور روایت ہے کہ عدل شرک کو ترک کرنے کا نام ہے اور احسان یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرنا گویا وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو مثلاً اگر وہ مومن ہو تو اُس کے ایمان کی برکات کی ترقی تمہیں پسند ہو اور اگر وہ کافر ہو تو تمہیں یہ پسند آئے کہ وہ تمہارا مسلمان بھائی ہوجائے۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک اور روایت میں ہے کہ عدل توحیدکا اور احسان اِخلاص کا نام ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹، ملخصاً)ان تمام روایتوں کا طرزِ بیان اگرچہ جدا جدا ہے لیکن مقصود ایک ہی ہے۔
اور حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’عدل یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن دونوں (اطاعت اور فرمانبرداری میں ) برابر ہو اور احسان یہ ہے کہ باطن کا حال ظاہر سے بہتر ہو۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابنِ عربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : عدل کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے رب کے درمیان ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کے مطالبے پر اپنے رب تعالیٰ کے حق کو ترجیح دے، اپنی خواہشات پر اس کی رضا کو مقدم کرے ، گناہوں سے اِجتناب کرے اور نیک اعمال بجا لائے۔ عدل کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے نفس کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو ان چیزوں سے روکے جس میں ا س کی ہلاکت ہے، پیروی کرنے والے سے اپنی طمع ختم کر دے اور ہر حال میں قناعت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ عدل کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ لوگوں کو خوب نصیحت کرے،قلیل و کثیر ہر چیز میں خیانت کرنا چھوڑ دے، ہر صورت میں لوگوں کے ساتھ انصاف کرے، اس کی طرف سے کسی کو بھی قول سے، فعل سے، پوشیدہ یا اِعلانیہ کوئی برائی نہ پہنچے اورلوگوں کی طرف سے اِس پر جو مصیبت اور آزمائش آئے اُس پر صبر کرے۔(تفسیرقرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰،۵ / ۱۲۱، الجزء العاشر)
عدل اور احسان دونوں پر عمل کیا جائے:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کے اُمور میں عدل اور احسان دونوں سے کام لے اور صرف عدل کرنے پر اِکتفا نہ کرے ۔چنانچہ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے عدل و احسان دونوں کا حکم دیا ہے اور عدل ہی نجات کاباعث ہے اور تجارت میں وہ مالِ تجارت کی طرح (ضروری) ہے اور احسان کامیابی اور خوش بختی کا سبب ہے اور تجارت میں یہ نفع کی طرح ہے لہٰذا وہ آدمی عقل مند لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جو دُنْیوی معاملات میں صرف مال پر اِکتفا کرے اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے لہٰذا دیندار آدمی کے لئے مناسب نہیں کہ عدل قائم کرنے اور ظلم سے بچنے پر ہی اِکتفا کرے اور احسان کے دروازوں کو چھوڑ دے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب الکسب والمعاش، الباب الرابع فی الاحسان فی المعاملۃ، ۲ / ۱۰۱)
{وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى:اور رشتے داروں کو دینے کا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں یا دور کے،اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)
رشتے داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کے فضائل:
رشتے داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۱۳۹۶)
(2)…حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں اللّٰہ ہوں اور میں رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں نے پیدا کیا اور اس کا نام میں نے اپنے نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا، میں اسے کاٹوں گا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی قطیعۃ الرحم، ۳ / ۳۶۳، الحدیث: ۱۹۱۴)
(3)…حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔( مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، من سرّہ ان یدفع عنہ میتۃ السوء فلیصل رحمہ، ۵ / ۲۲۲، الحدیث: ۷۲۶۲)
{وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر شرمناک اورمذموم قول و فعل سے نیز شرک ، کفر ،گناہ اور تمام ممنوعاتِ شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔
حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ فرماتے ہیں ’’ فَحْشَاء ، مُنْکَرْ اور بَغْی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن ایسا نہ ہو ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ’’ اس پوری آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیا اور تین سے منع فرمایا ہے ۔
(1)…عدل کا حکم دیا ۔عدل ،اَقوال اور اَفعال میں انصاف و مُساوات کا نام ہے اس کے مقابل فَحْشَاء یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں ۔
(2)… احسان کا حکم فرمایا ۔ احسان یہ ہے کہ جس نے ظلم کیا اس کو معاف کرو اور جس نے برائی کی اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ اس کے مقابل مُنْکَرْ ہے یعنی محسن کے احسان کا انکار کرنا ۔
(3)… رشتہ داروں کو دینے ، اُن کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اور شفقت و محبت سے پیش آنے کا حکم فرمایا۔ اس کے مقابل بَغْی ہے ۔ اس کا مطلب اپنے آپ کو اونچا قرار دینااور اپنے تعلق داروں کے حقوق تَلف کرنا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹-۱۴۰، ملخصاً)
{یَعِظُكُمْ:وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے۔} یعنی اس آیت میں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس سے منع کیا گیا ا س میں حکمت یہ ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو اور وہ کام کرو جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۴۰)
سورۂ نحل کی آیت نمبر 90سے متعلق بزرگانِ دین کے اَقوال:
سورۂ نحل کی اس آیتِ مبارکہ سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر الآیۃ الجامعۃ للخیر والشرّ فی سورۃ النحل، ۲ / ۴۷۳، الحدیث: ۲۴۴۰)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’طاعات فرض بھی ہیں اور نوافل بھی ، اور آدمی ان سب میں صبر کا محتاج ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ا س میں جمع فرما دیا
’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے۔
عدل فرض، احسان نفل اور قرابت داروں کو دینا مُرَوَّت اور صلہ رحمی ہے اور یہ تمام اُمور صبر کے محتاج ہیں ۔ دوسری قسم گناہوں پر مشتمل ہے اور ان پر صبر کرنے کی بھی بہت زیادہ حاجت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے گناہوں کو اپنے اس ارشادِ گرامی میں جمع فرما دیا
’’وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان مظان الحاجۃ الی الصبر وانّ العبد لا یستغنی عنہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۸۷)
تفسیر مدارک میں ہے کہ یہی آیت حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام کا سبب ہوئی ،وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے ایمان میرے دل میں جگہ پکڑ گیا ۔ اس آیت کا اثر اتنا زبردست ہوا کہ ولید بن مغیرہ اور ابوجہل جیسے سخت دل کفار کی زبانوں پر بھی اس کی تعریف آ ہی گئی۔ یہ آیت اپنے حسنِ بیان اور جامعیت کی وجہ سے ہر خطبہ کے آخر میں پڑھی جاتی ہے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۶۰۶، ملخصاً)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.