$header_html
Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah An Naml Ayat 80 Urdu Translation Tafseer

رکوعاتہا 7
سورۃ ﳗ
اٰیاتہا 93

Tarteeb e Nuzool:(48) Tarteeb e Tilawat:(27) Mushtamil e Para:(19-20) Total Aayaat:(93)
Total Ruku:(7) Total Words:(1276) Total Letters:(4724)
80

اِنَّكَ لَا تُسْمِــعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِــعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تم مردوں کو نہیں سناسکتے اور نہ تم بہروں کو پکار سناسکتے ہو جب وہ پیٹھ دے کرپھر رہے ہوں ۔


تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: بیشک تم مُردوں  کو نہیں  سناسکتے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  :یعنی جن لوگوں  کے دل مردہ ہیں  آپ انہیں  نہیں  سنا سکتے اور وہ لوگ کفار ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹)اورابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں  کفار کو زندہ ہونے اور حواس درست ہونے کے باوجود مُردوں  کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۸۵۶)

آیت ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ سے مُردوں  کے نہ سننے پر اِستدلال کرنے والوں  کا رد:

            بعض حضرات اس آیت سے مُردوں  کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ، ان کا استدلال غلط ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں  کفار کو مُردہ فرمایا گیا اور اُن سے بھی مُطلَقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں  ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کیلئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں  کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں  اٹھاتے۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مردوں  سے مراد کفار ہیں  اور (یہاں ) مطلق سننے کی نفی نہیں  بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کاسننا نفع بخش نہیں  ہوتا۔( مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، الفصل الاول، ۷ / ۵۱۹، تحت الحدیث: ۳۹۶۷)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں  سننے کی نفی نہیں  بلکہ سنانے کی نفی ہے اور اگر سننے کی نفی مان لی جائے تو یہاں  یقینا’’سننا‘‘ قبول کرنے کے لئے سننے اور نفع بخش سننے کے معنی میں  ہے۔ باپ اپنے عاقل بیٹے کو ہزار بارکہتاہے : وہ میری نہیں  سنتا۔ کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی۔ بلکہ صاف یہی کہ سنتا توہے، مانتا نہیں ، اور سننے سے اسے نفع نہیں  ہوتا، آیۂ کریمہ میں  اسی معنی کے ارادہ پر ’’ہدایت‘‘ شاہدکہ کفار سے نفع اٹھانے ہی کی نفی ہے نہ کہ اصل سننے کی نفی۔ خود اسی آیۂ کریمہ ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ تم نہیں  سناتے مگر انھیں  جو ہماری آیتوں  پریقین رکھتے ہیں  تو وہ فرمانبردار ہیں ۔ اور پُر ظاہر کہ وعظ و نصیحت سے نفع حاصل کرنے کا وقت یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل، قیامت کے دن سبھی کافر ایمان لے آئیں  گے، پھر اس سے کیا کام، توحاصل یہ ہوا کہ جس طرح مردوں  کو وعظ سے کوئی فائدہ نہیں ، یہی حال کافروں  کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں  مانتے۔( فتاویٰ رضویہ، ۹ / ۷۰۱، ملخصاً)

مُردوں  کے سننے کا ثبوت:

             کثیر اَحادیث سے مُردوں  کا سننا ثابت ہے، یہاں ہم بخاری شریف اور مسلم شریف سے دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں  جن میں  مردوں  کے سننے کا ذکر ہے۔ چنانچہ

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندے کو اس کی قبر میں  رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں  توبیشک وہ یقینا تمہارے جوتوں  کی آواز سنتا ہے۔( بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۳۳۸)

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  کفارِ بدر کی قتل گاہیں  دکھاتے تھے کہ یہا ں  فلاں  کافر قتل ہوگا اوریہاں  فلاں ، جہاں  جہاں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتایا تھا وہیں  وہیں  ان کی لاشیں  گریں ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان کی لاشیں  ایک کنویں  میں  بھردی گئیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں  تشریف لے گئے اور ان کفار کو ان کا اور ان کے باپ کا نام لے کر پکارا اور فرمایا: جو سچا وعدہ خداا ور رسول نے تمہیں  دیاتھا وہ تم نے بھی پالیا؟ کیونکہ جو حق وعدہاللہ تعالیٰ نے مجھے دیا تھا، میں  نے تو اسے پالیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جسموں  سے کیونکر کلام کرتے ہیں  جن میں  روحیں  نہیں ۔ ارشادفرمایا: جو میں  کہہ رہاہوں  اسے تم ان سے کچھ زیادہ نہیں  سنتے لیکن انہیں  یہ طاقت نہیں  کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں ۔( مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلھا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔الخ،ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶( ۲۸۷۳))

نوٹ: مُردوں  کے سننے سے متعلق مسئلے کی مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں  جلد میں  موجود رسالہ ’’حَیَاتُ الْمَوَاتْ فِیْ بَیَانِ سِمَاعِ الْاَمْوَاتْ‘‘ (مردوں  کی سماعت کے بیان میں  مفید رسالہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ: اور نہ تم بہروں  کو پکار سناسکتے ہو۔} اس کامعنی یہ ہے کہ کفار کو جس چیز کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے انتہا درجے کے اِعراض اورروگردانی کی وجہ سے وہ مُردے اور بہرے کی طرح ہوگئے ہیں  تو جس طرح مردے اور سننے سمجھنے سے قاصر بہرے کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں  دیتا اسی طرح ان کافروں  کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں  دیتا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹، ملخصاً)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links

$footer_html