Home ≫ Al-Quran ≫ Surah An Nisa Ayat 19 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(92) | Tarteeb e Tilawat:(4) | Mushtamil e Para:(4-5-6) | Total Aayaat:(176) |
Total Ruku:(24) | Total Words:(4258) | Total Letters:(16109) |
{لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا:تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔} اسلام سے پہلے اہلِ عرب کا یہ دستور تھا کہ لوگ مال کی طرح اپنے رشتہ داروں کی بیویوں کے بھی وارث بن جاتے تھے پھر اگر چاہتے تو مہر کے بغیر انہیں اپنی زوجیت میں رکھتے یا کسی اور کے ساتھ شادی کردیتے اور ان کا مہر خود لے لیتے یا انہیں آگےشادی نہ کرنے دیتے بلکہ اپنے پاس ہی رکھتے تاکہ انہیں جو مال وراثت میں ملا ہے وہ اِن لوگوں کو دیدیں اور تب یہ ان کی جان چھوڑیں یا عورتوں کو اس لئے روک رکھتے کہ یہ مرجائیں گی تو یہ روکنے والے لوگ ان کے وارث بن جائیں۔ الغرض وہ عورتیں ان کے ہاتھ میں بالکل مجبور ہوتیں اور اپنے اختیار سے کچھ بھی نہ کرسکتی تھیں اس رسم کو مٹانے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا یحلّ لکم ان ترثوا النساء کرہًا، ۳ / ۲۰۳، الحدیث: ۴۵۷۹، تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۶۷، الجزء الخامس، ملتقطاً)
{لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ: تاکہ جو مہر تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا یہ آیت اُس شخص کے متعلق ہے جو اپنی بیوی سے نفرت رکھتا ہو اور اُس کے ساتھ بدسلوکی ا س لئے کرتا ہو کہ وہ پریشان ہو کر مہر واپس کردے یا مہر معاف کردے، اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ لوگ عورت کو طلاق دیتے پھر رجوع کرلیتے پھر طلاق دیتے اس طرح عورت کو مُعَلَّق (لٹکا ہوا) رکھتے تھے ، وہ نہ ان کے پاس آرام پاسکتی نہ دوسری جگہ شادی کر کے گھر بسا سکتی، اس کو منع فرمایا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱ / ۳۶۰)
بیویوں پر ظلم وستم کرنے والے غور کریں :
یہاں جو حالات زمانہ ِجاہلیت کے بیان کئے جارہے ہیں ان پر غور کریں کہ کیا انہی حالات پر اِس وقت ہمارا معاشرہ نہیں چل رہا۔ بیویوں کو تنگ کرنا، جبری طور پر مہر معاف کروانا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، ذہنی اَذیتیں دینا، کبھی عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا اور کبھی اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کردینا، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، لتاڑنا، جھاڑنا وغیرہ۔ عورت بیچاری شوہر کے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے اور شوہر صاحب فرعون بنے آگے آگے جارہے ہوتے ہیں ، عورت کے گھر والوں سے صراحتاً یا بیوی کے ذریعے نت نئے مطالبے کئے جاتے ہیں ، کبھی کچھ دلانے اور کبھی کچھ دلانے کا۔ الغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے گھروں میں نہیں پائی جارہی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرے کہ قرآن کی یہ آیتیں ان لوگوں کو سمجھ آجائیں اور وہ اپنی اس بری رَوِش سے باز آ جائیں۔نیز ان آیات کی روشنی میں وہ لوگ بھی کچھ غور کریں جو اسلام سے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر بہت سختیاں ہیں۔ وہ دیکھیں کہ اسلام میں عورتوں پر سختیاں کی گئی ہیں یا انہیں سختیوں سے نجات دلائی گئی ہے؟
{فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا: توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو۔} گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک بہت عمدہ نفسیاتی طریقہ بیان کیا جارہا ہے ۔ بیوی کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بدخُلقی یا صورت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہ ہو تو صبر کرو اور بیوی کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بیوی سے تمہیں ایسی اولاد دے جو نیک اور فرماں بردار ہو، بڑھاپے کی بیکسی میں تمہارا سہارا بنے۔
مثبت ذہنی سوچ کے فوائد:
یہ طریقہ صرف میاں بیوی کے تعلقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہزاروں معاملات میں کام آتا ہے۔اس طریقے کو ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کہتے ہیں یعنی اگر کسی کام یا چیز میں خرابی کی کوئی صورت پائی جارہی ہے تو اس کے اچھے پہلوؤں پر بھی غور کرلو۔ ہوسکتا ہے کہ اچھے پہلو زیادہ ہوں یا اچھا پہلو زیادہ فائدے مند ہو مثلاً کسی کی بھی بیوی بدصورت ہے لیکن اسی سے آدمی کو نیک اولاد حاصل ہے، یہاں اگر بدصورتی کو گوارا کرلے تو اس کی زندگی امن سے گزرے گی لیکن اگر طلاق دیدے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیوی تو چھوٹ ہی جائے گی لیکن اس کے ساتھ بچے بھی چھوٹ جائیں گے اور ساری زندگی ایسی تلخیوں ، ذہنی اذیتوں ، اولاد کے حصول کی جنگ اور حقوق کی لڑائی میں گزرے گی کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یونہی کسی آدمی کو ادارے میں رکھا ہوا ہے جو کسی وجہ سے ناپسند ہے لیکن اسی کی وجہ سے نظام بہت عمدہ چل رہا ہے، اب اُس آدمی کو رکھنا اگرچہ پسند نہیں لیکن صرف ناپسندیدگی کی وجہ سے اُسے نکال دینا پورے نظام کو تباہ کردے گا تو ایسی جگہ فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اُسے برداشت کرلینا ہی بہتر ہے۔ یہ دو مثالیں عرض کی ہیں ، اِن کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بہت سے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ صرف ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہماری زندگی کی بہت سی تلخیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اِسی ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کا ایک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی پریشانیوں کی بجائے نعمتوں کو سامنے رکھے یعنی آدمی اگر ایک تکلیف میں ہے تو اُسی وقت میں وہ لاکھوں نعمتوں اور سینکڑوں کامیابیوں میں بھی ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ پریشانی اور ناکامی کی یاد تو اپنا وظیفہ بنالے اور خوشی اور کامیابی کو بھولے سے بھی نہ سوچے۔ اِس نسخے پر عمل کرکے دیکھیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بھر جائیں گی۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.