Home ≫ Al-Quran ≫ Surah An Nur Ayat 35 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(102) | Tarteeb e Tilawat:(24) | Mushtamil e Para:(18) | Total Aayaat:(64) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1488) | Total Letters:(5670) |
{اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اللہآسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔} نور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’آیت کے اس حصے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا ہادی ہے تو زمین و آسمان والے اس کے نور سے حق کی راہ پاتے ہیں اور اس کی ہدایت سے گمراہی کی حیرت سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا: ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو منور فرمانے والا ہے اور اُس نے آسمانوں کو فرشتوں سے اور زمین کو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے منور کیا۔‘‘(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۳)
{مَثَلُ نُوْرِهٖ: اس کے نور کی مثال۔} بعض مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے نور سے مؤمن کے دل کی وہ نورانیت مراد ہے جس سے وہ ہدایت پاتا اور راہ یاب ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس نور کی مثال ہے جو اس نے مؤمن کو عطا فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس نور سے قرآن مراد لیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ اس نور سے مراد سیّد ِکائنات، افضلِ موجودات، رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔
نور کی مثال کے مختلف معانی:
اہلِ علم نے اس آیت میں بیان کی گئی مثال کے کئی معنی بیان فرمائے ہیں ،ان میں سے دو معنی درج ذیل ہیں ،
(1)… نور سے مراد ہدایت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت انتہائی ظہور میں ہے کہ عالَمِ محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس ہو، اس فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی بہتر اور پاک صاف زیتون سے روشن ہوتا کہ اس کی روشنی نہایت اعلیٰ اور صاف ہو۔
(2)… یہ سید المرسلین، محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نورکی مثال ہے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ اس آیت کے معنی بیان کرو۔ انہوں نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مثال بیان فرمائی۔ روشندان (یعنی طاق) تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ شریف ہے اور فانوس، قلبِ مبارک اور چراغ، نبوت ہے جوکہ شجر ِنبوت سے روشن ہے اور اس نورِ محمدی کی روشنی کمالِ ظہور میں اس مرتبہ پر ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نبی ہونے کا بیان بھی نہ فرمائیں جب بھی خَلْق پر ظاہر ہوجائے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ روشندان تو دو عالَم کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ مبارک ہے اور فانوس قلب ِاَطہر اور چراغ وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا کہ شرقی ہے نہ غربی نہ یہودی، نہ نصرانی، ایک شجرئہ مبارکہ سے روشن ہے، وہ شجر ہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے دل کے نور پر نورِ محمدی، نور پر نور ہے۔
حضرت محمد بن کعب قرظی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ روشن دان اور فانوس تو حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور چراغ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور شجرۂ مبارکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کہ اکثر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کی نسل سے ہیں اور شرقی وغربی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہ یہودی تھے نہ عیسائی، کیونکہ یہود ی مغرب کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور عیسائی مشرق کی طرف۔ قریب ہے کہ محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مَحاسِن و کمالات نزولِ وحی سے پہلے ہی مخلوق پر ظاہر ہو جائیں ۔ نور پر نور یہ کہ نبی کی نسل سے نبی ہیں اور نور ِمحمدی نورِ ابراہیمی پر ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۴) اس مثال کی تشریح میں ان کے علاوہ اور بھی بہت اَقوال ہیں ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے اس آیت کا خلاصہ ایک شعر میں سمو دیا، چنانچہ فرماتے ہیں ،
شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سورہ نور کا
{مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ: برکت والے درخت زیتون سے۔} زیتون کا درخت انتہائی برکت والاہے کیونکہ اس میں بہت سارے فوائد ہیں ، جیسے اس کا روغن جس کو زَیت کہتے ہیں انتہائی صاف اور پاکیزہ روشنی دیتا ہے۔سر میں بھی لگایا جاتا ہے اور سالن کی جگہ روٹی سے بھی کھایا جاتا ہے۔ دنیا کے اور کسی تیل میں یہ وصف نہیں ۔ زیتون کے درخت کےپتے نہیں گرتے۔ یہ درخت نہ سرد ملک میں واقع ہے نہ گرم ملک میں بلکہ ان کے درمیان ملک شام ہے کہ نہ اُسے گرمی سے نقصان پہنچے نہ سردی سے اور وہ نہایت عمدہ و اعلیٰ ہے اور اس کے پھل انتہائی مُعْتَدِل ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۳-۳۵۴، ملخصاً)
زیتون سے متعلق حضرت ابو اسید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو یہ مبارک درخت ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی اکل الزیت، ۳ / ۳۳۷، الحدیث: ۱۸۵۹)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.