Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ar Rad Ayat 11 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(96) | Tarteeb e Tilawat:(13) | Mushtamil e Para:(13) | Total Aayaat:(43) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(976) | Total Letters:(3503) |
{لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ:آدمی کے لیے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں ۔} جمہور مفسرین کے نزدیک ان فرشتوں سے دن اور رات میں حفاظت کرنے والے فرشتے مراد ہیں ، انہیں بدل بدل کر باری باری آنے والا اس لئے کہا گیا کہ جب رات کے فرشتے آتے ہیں تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۱۷)
فجر اور عصر کی نماز پڑھنے کا فائدہ:
فرشتوں کی یہ تبدیلی فجر اور عصر کی نماز کے وقت ہوتی ہے اور جو لوگ یہ دونوں نمازیں ادا کرتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ فرشتوں کی تبدیلی کے وقت وہ حالتِ نماز میں ہوتے ہیں ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات اور دن کے فرشتے تم میں باری باری آتے رہتے ہیں اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں پھر جو تمہارے پاس آئے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان کا رب عَزَّوَجَلَّ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیہما، ص۳۱۷، الحدیث: ۲۱۰(۶۳۲))
{یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ:اللّٰہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔} امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ حفاظت پرمامور ہے جو سوتے جاگتے جن و اِنس اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر ستانے والی چیز کو اس سے روک دیتا ہے سوائے اس کے جس کا پہنچنا مَشِیَّت میں ہو۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۵۵)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے بھی حفاظت کرتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ حفاظت کرنے کی قدرت عطا فرمائے وہ بھی حفاظت کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے حفاظت کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود کسی کوجو اَذِیَّت یا تکلیف پہنچ جاتی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا پہنچنا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہوتا ہے اور جو چیز اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے خلاف نہیں کرتے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے بلاؤں اور آفتوں سے حفاظت کرنے والا ماننا اور ان سے حفاظت کی اِلتجا کرنا درست ہے اور اگر التجا کے باوجود حفاظت نہ ہو تو ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا غلط و باطل ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ:بیشک اللّٰہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا ۔}اس آیت میں قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے۔(صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۹۹۴)
قوموں کے زوال سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ کا قانون:
قدرت کا یہی اٹل قانون سورۂ اَنفال کی اس آیت میں بھی بیان ہو چکا ہے
’’ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ‘‘ (انفال:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ اس وجہ سے ہے کہ اللّٰہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔
اسلامی تاریخ میں اس قانون کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنت ِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہوجانا، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں کے پہلے قبلے ’’بیتُ المقدس‘‘ کا یہودیوں کے قبضے میں چلے جانا، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں پاکستان کے دوٹکڑے ہوجانا، عراق اور افغانستان پر غیروں کا قبضہ ہو جانا ،مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.