Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ar Rad Ayat 6 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(96) | Tarteeb e Tilawat:(13) | Mushtamil e Para:(13) | Total Aayaat:(43) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(976) | Total Letters:(3503) |
{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ:اور رحمت سے پہلے تم سے عذاب کا جلدی مطالبہ کرتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مکہ کے مشرکین مذاق اڑاتے ہوئے آپ سے عافیت اور سلامتی کے بدلے جلدی عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلانے والی امتوں کی عبرتناک سزائیں گزر چکی ہیں ، ان کا حال دیکھ کر انہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ تو لوگوں کے شرک کے باوجود بھی ایک طرح کی معافی دینے والا ہے کہ ان کے عذاب میں جلدی نہیں فرماتا اور انہیں مہلت دیتا ہے تو ان لوگوں کو تو اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے توبہ کرنی چاہیے اور کفروشرک سے باز آجانا چاہیے اور ہرگز ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جب عذاب نازل فرماتا ہے تو اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہوتا ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۵۳-۵۴)
اللّٰہ تعالیٰ کاعَفْو دیکھ کر غافل نہیں ہونا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سے ایک بڑے گناہ کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے فوری پکڑ نہ ہونا اور جلد سزا نہ ملنا اللّٰہ تعالیٰ کا عفو و درگزر اور اس کی رحمت ہے اور اس کے نتیجے میں ہونا یہ چاہئے کہ بندہ اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری والے کاموں میں مصروف ہو جائے اور اس کی رحمت دیکھ کر ہر گز غفلت کا شکار نہ ہو کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے تو جبّار و قَہّار بھی ہے ،و ہ عفو ودرگزر کرنے والا ہے تو پکڑ و گرفت فرمانے والا بھی ہے، وہ گناہوں کوبخشنے والا ہے تو گناہوں پر سزا اور عذاب دینے والا بھی ہے، لیکن افسوس! ہمارا حال اس کے انتہائی برعکس نظر آرہا ہے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی طرف سے ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی نافرمانی اور سرکشی والی عادت کو مزید پختہ کئے جا رہے ہیں اور اس بات کو اپنے حاشیۂ خیال تک میں لانے کو تیار نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِؕ-لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَؕ-بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىٕلًا(کہف:۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہارا رب بڑا بخشنے والا،رحمت وا لا ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی بنا پر پکڑ لیتا تو جلد ان پر عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک وعدے کا وقت ہے جس کے سامنے کوئی پناہ نہ پائیں گے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹)وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(حجر: ۴۹، ۵۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنےوالا مہربان ہوں ۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا مُحاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا کر رکھے اور اللّٰہ تعالیٰ سے امید رکھے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
حضرت یحییٰ بن معاذرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’میرے نزدیک سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ معافی کی امید پر ندامت کے بغیر آدمی گناہوں میں بڑھتا جائے ،اطاعت کے بغیر اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی توقع رکھے ،جہنم کا بیج ڈال کر جنت کی کھیتی کا منتظر رہے،گناہوں کے ساتھ عبادت گزار لوگوں کے گھر کا طالب ہو،عمل کے بغیر جزا کا انتظار کرے اور زیادتی کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ سے(مغفرت کی) تمنا کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۶)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے عفو سے غافل نہ ہونے، اپنے عذاب سے ڈرتے رہنے اور اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے نیک اعمال کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.