Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ar Rum Ayat 39 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(84) | Tarteeb e Tilawat:(30) | Mushtamil e Para:(21) | Total Aayaat:(60) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(916) | Total Letters:(3419) |
{ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ: اورجو مال تم لوگوں کودو۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں وہی سود مراد ہے جسے سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر279میں حرام فرمایاگیاہے یعنی تم قرض دے کر جو سود لیتے ہو اور اپنے مالوں میں اضافہ کرتے ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اضافہ نہیں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں وہ تحفے مراد ہیں جو اس نیت سے دئیے جاتے تھے کہ جسے تحفہ دیا وہ اس سے زیادہ دے گا،چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں کہ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست اَحباب اور شناسائی رکھنے والوں کو یا اور کسی شخص کو اس نیت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۴۱)
نیوتا اور تحفہ دینے والوں کے لئے نصیحت:
اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو شادی بیاہ وغیرہ پر اپنے عزیز رشتہ داروں یا دوست احباب کو نیوتا اور تحائف وغیرہ دیتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ زیادہ دینے پر ان کی خوب تعریف کریں ،یا اس لئے دیتے ہیں کہ خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے، یا صرف اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں پانچ کے دس ہزار ملیں ،ایسے لوگ ثواب کے مستحق نہیں ہیں ۔
{وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ: اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو۔} یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ اور دیگر صدقات دیتے ہیں کہ اس سے بدلہ لینا مقصود ہو تا ہے نہ نام و نمود تو ان ہی لوگوں کا اجرو ثواب زیادہ ہوگا اورانہیں ایک نیکی کا ثواب دس ُگنا زیادہ دیا جائے گا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۴۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۶۵، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۰۹، ملتقطاً)
زکوٰۃ اور صدقات اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کیلئے دئیے جائیں :
معلوم ہوا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دی جائے یا دیگر نفلی صدقات نکالے جائیں ،سب میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصد ہونا چاہئے تاکہ اس پر انہیں کثیراجر و ثواب ملے اوریہ مقصد نہ ہو کہ اس کے بدلے میں زکوٰۃ لینے والا ان کی خوب آؤ بھگت کرے ،ان کا خدمت گار بن کر رہے اور ان کا ہر کام ایک ہی اشارے پر بجالائے ،ہر وقت ان کا احسان مند رہے ، لوگوں میں ان کے نام کا خوب چرچا ہو اور لوگ ان کے صدقات وغیرہ کی کثرت پر تعریفوں کے پل باندھیں ۔ اگر اس مقصد سے زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دئیے تو ثواب ملنا تو دور کی بات الٹا اس کے گناہوں کا میٹر تیز ہوجاتا ہے، لہٰذا زکوٰۃ دی جائے یا صدقات بہر صورت صرف اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے ہواس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہ ہو۔ نیز جو لوگ زکوٰۃ کے حقداروں کو زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں ،پھر اگر انہیں ان لوگوں سے کوئی ذاتی کام پڑ جائے اور وہ کسی وجہ سے نہ کر پائیں یا کرنے سے انکار کر دیں تو یہ انہیں حق دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دینا بند کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا ذاتی کام نہیں کر سکے ۔ایسے حضرات اپنے دل کی حالت پر خود ہی غور کر لیں کہ اگر واقعی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے زکوٰۃ اور صدقات دئیے تھے تو ذاتی کام نہ ہو سکنے کی وجہ سے انہیں زکوٰۃ اور صدقات دینا بند کیوں کر رہے ہیں ؟ ریاکاری بڑا نازک معاملہ ہے ۔ بہت سے لوگ بے تَوَجُّہی میں بھی اس کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا ہر شخص کواپنے حال پر غور کرتے رہنا چاہیے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.