تو لوگوں سے نظر بچا کر دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے لگے۔تو کافر اس کی طرف جلدی کرتے ہوئے آئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَرَاغَ
عَلَیْهِمْ ضَرْبًا: تو لوگوںسے نظر بچا کر انہیںمارنے لگے۔} جب
بتوںنے بالکل کوئی جواب نہ دیا تو حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام نے لوگوںسے نظر بچا کر دائیں ہاتھ میںکلہاڑا اٹھا یا اور ان بتوںکو مارنے لگے یہاںتک کہ آپعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامنے بتوںکو مار مار کر پارہ
پارہ کردیا ۔(بحرالمیحط، الصافات، تحت الآیۃ:۹۳،۷ / ۳۵۱، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۳،۸ / ۷۰، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
نوٹ:اس واقعہ کی تفصیل سورۂ اَنبیاء آیت نمبر57،58میںبیان ہو چکی ہے۔
{فَاَقْبَلُوْۤا
اِلَیْهِ: تو کافر اس کی طرف آئے۔} جب
کافروںکو اس بات کی خبر پہنچی تو وہ بہت
جلد حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوںکو پوجتے ہیںاورتم انہیںتوڑتے ہو۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۲۱، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۳۷۶-۳۷۷، ملتقطاً)
سورۃ کا تعارف
سورۂ صا فّات کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ صافّات مکہ مکرمہ
میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ والصافات، ۴ / ۱۴)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس سورت میں 5 رکوع، 182آیتیں
ہیں ۔
’’صا فّات ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
صافّات کا معنی ہے صفیں
باندھنے والے،اور اس سورت کی پہلی آیت میں صفیں باندھنے والوں کی قسم ارشاد
فرمائی گئی اس مناسبت سے اس کا نام ’’سورۂ صافّات ‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ صا فّات کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُمَاسے مروی ہے ،نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
جمعہ کے دن سورۂ یٰسین اور سورۂوَ الصّٰٓفّٰتْ کی تلاوت کی ،پھر ا س نے اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کیا تو اللہ
تعالیٰ اس کا وہ سوال پورا کر دے گا۔( در منثور، سورۃ الصافات،
۷ / ۷۷)
مضامین
سورۂ صا
فّات کے مضامین:
جس طرح دیگر مکی سورتوں میں اکثر بنیادی عقائد کے بیان پر زور دیا گیا ہے
اسی طرح اس سورت میں بھی توحید، وحی،
نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کوثابت کیا گیا ہے
اور اس میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء میں صفیں باندھنے والوں ،جھڑک کر چلانے والوں اور قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والی جماعتوں کی قسم ذکر کرکے فرمایا گیا عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے جو کہ آسمانوں ،زمینوں ،ان کے درمیان
موجود تمام چیزوں اور تمام مَشرقوں کا رب ہے اور یہ بتایا گیا کہ آسمان کو تمام
سرکش جِنّات سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور اب وہ عالَمِ بالا کے فرشتوں کی باتیں نہیں سن
سکتے اور جو ان کی باتیں سننے کے لئے اوپر
جائے تو اسے شِہابِ ثاقب سے مارا جاتا ہے۔
(2)…جو کفار نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معجزات دیکھ کر مذاق اڑاتے تھے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ان کی مذمت بیان کی گئی اور نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی کہ وہ دن عنقریب آنے ولا ہے جس میں ان
کافروں کا انجام انتہائی دردناک ہو گا۔
(3)…اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کی جزاء میں جنت کی نعمتیں بیان کی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو کس چیز کے لئے عمل کرنا چاہئے۔
(4)…پچھلی امتوں کے احوال بیان کئے گئے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو
جھٹلایا انہیں عذاب میں مبتلا کر دیاگیا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں
نے اپنے رسولوں کی پیروی کی تو وہ عذاب سے محفوظ رہے ۔
(5)… حضرت نوح ،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت
موسیٰ،حضرت ہارون،حضرت الیاس،حضرت لوط اور حضرت یونسعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے اور ان میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت یونسعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔
(6)…کفار کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ،ان کے اس عقیدے کا رد کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی گئی ۔
سورۂ صافّات کی اپنے سے ماقبل سورت ’’یٰسٓ‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یٰسٓمیں ہلاک کی گئی سابقہ اُمتوں
کے احوال کی طرف اشارہ کیاگیا اور سورۂ
صافّات میں ان امتوں کے اَحوال تفصیل سے بیان کئے گئے۔ دوسری
مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یٰسٓ میں دنیا اور آخرت میں کافروں اور مسلمانوں کے اَحوال اِجمالی طور پر ذکر کئے گئے اور سورۂ
صافّات میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں
۔