Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ash Shuara Ayat 26 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(47) | Tarteeb e Tilawat:(26) | Mushtamil e Para:(19) | Total Aayaat:(227) |
Total Ruku:(11) | Total Words:(1463) | Total Letters:(5553) |
{قَالَ: کہا۔} اس آیت اوربعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے آس پاس اس کی قوم کے سرداروں میں سے پانچ سو شخص زیوروں سے آراستہ زریں کرسیوں پر بیٹھے تھے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر تعجب کرتے ہوئے فرعون نے ان سے کہا’’ کیا تم غور سے نہیں سنتے‘‘اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سارے جہان کے رب کی ماہیت پوچھی ہے اور یہ اِس کے جواب میں اُس کے افعال اور آثار بتا رہے ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا یہ کہنااس معنی میں تھا کہ وہ لوگ آسمان اور زمین کو قدیم سمجھتے تھے اور ان کے حادث ہونے کا انکار کرتے تھے اور مطلب یہ تھا کہ جب یہ چیزیں قدیم ہیں تو ان کے لئے ربّ کی کیا حاجت ہے۔یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان چیزوں سے اِستدلال پیش کر نے کی ضرورت محسوس فرمائی جن کا حادث ہونا اور جن کا فنا ہو جانا ان کے مشاہدہ میں آ چکا تھا، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر تم دوسری چیزوں سے استدلال نہیں کرسکتے تو خود تمہاری جانوں سے استدلال پیش کیا جاتا ہے،سنو!تم لوگ اپنے آپ کے بارے میں جانتے ہو کہ پیدا ہوئے ہو اور اپنے باپ دادا کے بارے میں جانتے ہو کہ وہ فنا ہوگئے تو تمہاری اپنی پیدائش اور تمہارے باپ دادا کے فنا ہو جانے میں اس رب تعالٰی کے وجود کا ثبوت موجود ہے جو پیدا کرنے والا اور فنا کر دینے والا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۳ / ۳۸۵، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۸۱۷، ملتقطاً)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.