Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ash Shura Ayat 37 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(62) | Tarteeb e Tilawat:(42) | Mushtamil e Para:(25) | Total Aayaat:(53) |
Total Ruku:(5) | Total Words:(983) | Total Letters:(3473) |
{وَ الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ: اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں ۔} یعنی اجر وثواب ان کیلئے بھی ہے جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اِجتناب کرتے ہیں ۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے کرنے پر دنیا میں حد جاری ہو جیسے قتل، زنا اور چوری وغیرہ یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید ہو جیسے غیبت،چغل خوری،خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ ۔بے حیائی کے کاموں سے وہ تمام کام اور باتیں مراد ہیں جو معیوب اور قبیح ہوں۔(روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۳۲۸، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۹۸، ملخصاً)
کبیرہ گناہوں سے بچنے والے کا ثواب:
اس آیت میں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے والوں کے لئے قیامت کے دن اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہے۔کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا‘‘(النساء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
اورحضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا،نماز قائم کی،زکوٰۃ ادا کی، رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا تو ا س کے لئے جنت ہے۔ایک شخص نے عرض کی:( یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)، کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا،کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنا اور کفار سے جنگ کے دن میدان سے فرار ہونا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۹ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۳۵۶۵)
اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ‘‘(النجم:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے۔
اور حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مجھے ا س چیز کی ضمانت دے جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرمگاہ) اور جو دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان)تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔( بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والرّدۃ، باب فضل من ترک الفواحش، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۶۸۰۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:کبیرہ گناہوں سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے سورۂ نساء ،آیت نمبر31کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں اور تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’اَلزَّوَاجِر لِاِقْتِرَافِ الْکَبَائِر‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔([1])
{وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَ: اور جب انہیں غصہ آئے تومعاف کردیتے ہیں ۔} اس آیت میں کسی پر غصہ آنے کی صورت میں معاف کر دینے والے کو بھی اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو اس وقت در گُزر کرنا اور بُردباری کا مظاہرہ کرنا اَخلاقی اچھائیوں میں سے ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ در گزر کرنے سے کسی واجب میں خَلَل واقع نہ ہو اور اگر کسی واجب میں خَلَل واقع ہو تو غضب کا اظہار کرنا ضروری ہے جیسے کوئی اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کسی کام کو کرے تو اس وقت در گزر سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اس پر غصہ کرنا واجب ہے۔(مراد یہ کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پردل میں ناراضگی کا آنا ضروری ہے ،یہ ضروری نہیں کہ گناہ کے مُرتکِب پر اظہار بھی کیا جائے ۔ اس کا دارومدار موقع محل کی مناسبت پر ہے۔)( صاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۱۸۷۸)
غصہ آنے پر معاف کر دینے کی فضیلت:
غصہ آنے پر معاف کر دینے کی فضیلت بکثرت اَحادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ،چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص اپنے غصے کو نافذ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود غصہ پی جائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اختیار دے گا کہ حورِ عِین میں سے جو حور وہ چاہے لے لے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من کظم غیظاً، ۴ / ۳۲۵، الحدیث: ۴۷۷۷)
اورحضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے غصہ ضبط کر کے ا س کا گھونٹ پیا یا جس نے مصیبت کے وقت صبر کا گھونٹ پیا، اللہ تعالیٰ کو اس گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے جس شخص کی آنکھ نے ا ٓنسو کا قطرہ گرا یا اور خون کا وہ قطرہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گرا ا س سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی قطرہ پسند نہیں ۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الغضب والغیظ وما جاء فیہ،۱۰ / ۱۹۵، الحدیث: ۲۰۴۵۷)
غصہ آنے کا بنیادی سبب اور غصے کے 3علاجـ:
غصہ آنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب انسان کسی اور سے کوئی بات کرتا یا اسے کوئی کام کرنے کا کہتا ہے اور وہ بات نہیں مانتا یا وہ کام نہیں کرتا تو غصہ آجاتا ہے،ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دے یا ایسے اَسباب اختیار کرے جن سے غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور دل و دماغ کو تسکین حاصل ہو،ترغیب کے لئے یہاں غصہ ٹھنڈا کرنے کے 3 طریقے ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے ،اگر ا س کا غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ اسے چاہئے کہ لیٹ جائے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۴۷۸۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ خاموش ہو جائے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن العباس۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱۵، الحدیث: ۲۱۳۶)
علامہ ابنِ رجب حنبلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یہ غصے کا بہت بڑا علاج ہے کیونکہ غصہ کرنے والے سے غصے کی حالت میں ایسی بات صادر ہو جاتی ہے جس پر اسے غصہ ختم ہونے کے بعد بہت زیادہ ندامت اٹھانی پڑتی ہے، جیسے غصے کی حالت میں گالی وغیرہ دے دینا جس کا نقصان بہت زیادہ ہے ،تو جب وہ خاموش ہو جائے گا تو اسے اس کے کسی شر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔( جامع العلوم و الحکم، الحدیث السادس عشر، ص۱۸۴)
(3)…حضرت عطِیَّہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے ہی بجھایا جا سکتا ہے ، لہٰذاجب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۴۷۸۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں غصہ کرنے سے بچنے اور غصہ آجانے کی صورت میں معاف کردینے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔([2])
[1] ۔۔۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بنام ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ مکتبۃ المدینہ سے شائع ہو چکا ہے، وہاں سے ہدیۃً حاصل کر کے اس کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] ۔۔۔ غصہ اور عَفْوو درگُزرسے متعلق اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان رسائل’’غصے کا علاج‘‘ اور ’’عفوو درگزر کے فضائل‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.