Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ash Shura Ayat 50 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(62) | Tarteeb e Tilawat:(42) | Mushtamil e Para:(25) | Total Aayaat:(53) |
Total Ruku:(5) | Total Words:(983) | Total Letters:(3473) |
{لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین کاحقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے،وہ ان میں جیسا چاہتاہے تَصَرُّف فرماتا ہے اوراس میں کوئی دخل دینے اور اِعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۳۴۲، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۰۰، ملتقطاً)
اپنی مِلکِیَّت میں موجود چیزوں پر غرور نہ کیا جائے:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ بیان فرمانے سے مقصود یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی مِلکِیَّت میں موجود مال اور عزت و شہرت کی وجہ سے مغرور نہ ہو ،کیونکہ جب اسے اس بات کا یقین ہو گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے یہ اس پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے تو اس صورت میں وہ مزید اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کی طرف مائل ہو گا اور جب ا س کا اعتقاد یہ ہو گا کہ ا س کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ اس کی عقلمندی اور کوشش کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں تو وہ اپنے نفس پر غرورکرے گا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے دور ہوجائے گا۔(تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۹ / ۶۰۹)
{یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا: جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عالَم میں اپنے تَصَرُّف اور اپنی نعمت کو تقسیم کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ جسے چاہے صرف بیٹیاں عطا فرمائے اور بیٹانہ دے اور جسے چاہے صرف بیٹے دے اور بیٹیاں نہ دے اور جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا کردے اور جسے چاہے بانجھ کردے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے، اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے اورجسے جو چاہے دے۔ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں بھی کئی صورتیں پائی جاتی ہیں ، جیسا کہ حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ،کوئی بیٹا نہ تھا جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں صرف بیٹے تھے ،کوئی بیٹی نہیں تھی اور انبیاء کے سردار، حبیب ِخدا،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے چار (یا تین)فرزند عطا فرمائے اور چار صاحب زادیاں عطا فرمائیں ۔
بیٹے اور بیٹیاں دینے یا نہ دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کسی کے ہاں صرف بیٹے پیدا کرنے،کسی کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا کرنے اور کسی کے ہاں بیٹے اور بیٹیاں دونوں پیدا کرنے کا اختیار اور قدرت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،کسی عورت کے بس میں یہ بات نہیں کہ وہ اپنے ہاں بیٹا یا بیٹی جو چاہے پیدا کر لے، اور جب یہ بات روشن دن سے بھی زیادہ واضح ہے تو بیٹی پیدا ہونے پر عورت کو مَشقِ سِتم بنانا،اسے طرح طرح کی اَذِیَّتیں دینا،بات بات پہ طعنوں کے نشتر چبھونا ،آئے دن ذلیل کرتے رہنا،صرف بیٹیاں پیدا ہونے پر اسے منحوس سمجھنا اورطلاق دے دینا،قتل کی دھمکیاں دینا بلکہ بعض اوقات قتل ہی کر ڈالنا ،یہ ا س مجبور اور بے بس کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے،افسوس!ہمارے آج کے معاشرے میں مسلمانوں نے اُس طرزِ عمل کو اپنایا ہوا ہے جو دراصل کفار کا طریقہ تھا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔
افسوس! اسلام نے عورت کو جس آگ سے نکالا آج کے لوگ اسے پھر سے اسی میں جھونک رہے ہیں ۔ اسلام نے کفار کے چھینے ہوئے جو حق عورت کو واپس دلائے آج کے مسلمان وہی حق چھیننے میں لگے ہوئے ہیں ۔اسلام نے عورت کو ذلت و رسوائی کی چکی سے نکال کر معاشرے میں جو عزت اور مقام عطا کیا ،آج کے مسلمان دوبارہ اسے اسی چکی میں پسنے کے لئے دھکیل رہے ہیں اور شاید انہی بد عملیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام کے دشمن عورت کے حقوق کی آڑ میں مسلمانوں کے اسی کردار کو دنیا کے سامنے پیش کر کے دینِ اسلام جیسے امن کے عَلَمْبردار مذہب کو ہی دہشت گرد مذہب ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.