Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Az Zukhruf Ayat 35 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(63) | Tarteeb e Tilawat:(43) | Mushtamil e Para:(25) | Total Aayaat:(89) |
Total Ruku:(7) | Total Words:(939) | Total Letters:(3549) |
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ (کافروں کی) ایک جماعت ہوجائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کے مال و دولت کی کثرت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر سب لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم ضرور کافروں کو اتنا سونا چاندی دیدیتے کہ وہ انہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے جن پر وہ چڑھتے اور وہ اپنے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے بناتے اور بیٹھنے کے لئے چاندی کے تخت بناتے جن پر ٹیک لگا کر بیٹھتے اور وہ طرح طرح کی آرائش کرتے، کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں ، یہ بہت جلد زائل ہونے والا ہے اوریہ جو کچھ ہے سب دُنْیَوی زندگی ہی کا سامان ہے جس سے انسان بہت تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھا سکے گا اور آخرت تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ان پرہیزگاروں کے لیے ہے جنہیں دنیا کی چاہت نہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۵، ۴ / ۱۰۵)
کفار کا مال و دولت اور عیش و عشرت دیکھ کر مسلمانوں کا حال:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہو ا کہ کافروں کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر لوگ کافر ہوسکتے ہیں ۔ ا س کی صداقت آج کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے ،گو کہ سبھی کافروں کا مال و دولت اور عیش و عشرت اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ چاندی سے اپنے گھروں کی تعمیرات شروع کر دیں لیکن اس وقت جو کچھ ان کے پاس موجود ہے اس کی چمک دمک دیکھ کرکچھ مسلمان اپنا دین چھوڑ چکے ہیں ،کچھ اس کی تیاری میں ہیں اورکچھ مسلمان کہلانے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ کافروں کی دُنْیَوی ترقی دیکھ کردینِ اسلام سے ناراض دکھائی دیتے اور خود پر کافروں کے طور طریقے مُسلَّط کئے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔یاد رہے کہ دنیا کا عیش و عشرت اور اس کا سازوسامان عارضی ہے جو کہ ایک دن ضرور ختم ہو جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔ (دنیا کی زندگی ایسی ہے) جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگتا ہے پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا(بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب (بھی) ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اور ارشادفرماتا ہے: ’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷)وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًا‘‘(کہف:۷،۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔ اور بیشک جو کچھ زمین پر ہے (قیامت کے دن) ہم اسے خشک میدان بنادیں گے (جس پر کوئی رونق نہیں ہوتی۔)
لہٰذا مسلمانوں کو دنیا کے عیش عشرت اور مال و دولت کی طرف راغب نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اپنے حق میں ایک آزمائش یقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش و مغفرت کا پروانہ پانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک کوشش کرنی چاہئے ،جیساکہ دنیا کی فَنائِیَّت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘‘(حدید:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اور اس پر اِستقامت پانے کے لئے ا س حقیقت کو اپنے پیش ِنظر رکھنا چاہئے کہ دنیا کا جتنا سازو سامان اور جتنی عیش و عشرت ہے، ا س سب کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مچھر کے پر جتنی بھی حیثیت نہیں ،جیساکہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگراللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی قدررکھتی توکافرکو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۳، الحدیث: ۲۳۲۷)
اور حضرت مُستَورِد بن شداد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نیاز مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک مردہ بکری دیکھی تو ارشاد فرمایا: ’’تم دیکھ رہے ہو کہ اس کے مالکوں نے اسے بہت بے قدری سے پھینک دیا، دنیا کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی قدر نہیں جتنی بکری والوں کے نزدیک اس مری ہوئی بکری کی ہو۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۴، الحدیث: ۲۳۲۸)
اور جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی یہ حیثیت ہے تو دنیا کا مال و دولت اور عیش و عشرت نہ ملنے پر کسی مسلمان کو غمزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے شکر کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس چیز سے بچا لیا جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں ۔ حضرت قتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر کرم فرماتا ہے تو اُسے دنیا سے ایسا بچاتا ہے جیسا تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ما جاء فی الحمیۃ، ۴ / ۴، الحدیث: ۲۰۴۴)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۱(۲۹۵۶))
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حیثیت اور حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کافروں کے مال و دولت کی چمک سے مُتَأثِّر ہونے کی بجائے دینِ اسلام کے دئیے ہوئے اَحکام اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.