Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Az Zumar Ayat 22 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(59) | Tarteeb e Tilawat:(39) | Mushtamil e Para:(23-24) | Total Aayaat:(75) |
Total Ruku:(8) | Total Words:(1274) | Total Letters:(4795) |
{اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ: تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور اسے حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یقین و ہدایت پر ہے اس جیسا ہوجائے گا جس کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی تو وہ ہدایت قبول نہیں کرتا ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(انعام:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ آیت ’’اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ‘‘ تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سینے کا کھلنا کس طرح ہوتا ہے؟ارشاد فرمایا کہ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھلتا ہے اور اس میں وسعت ہوتی ہے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:اس کی کیا علامت ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف متوجہ ہونا اور دھوکے کے گھر (یعنی دنیا سے) دور رہنا اور موت کے لئے اس کے آنے سے پہلے آمادہ ہونا۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الخامس، ص۳۵۶، الحدیث: ۹۷۴)
{فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ: تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔} یعنی ان کے لئے خرابی ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے یا اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو وہ پہلے سے زیادہ سکڑ جائیں اور ان کے دلوں کی سختی زیادہ ہو جائے ،یہی لوگ جن کے دل سخت ہو گئے حق سے بہت دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۴۶۵، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنوں کے دل نرم ہوتے اور کافروں کے دِلوں کی سختی بڑھتی ہے:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تصنیف تفسیر خازن میں فر ماتے ہیں ’’ نفس جب خبیث ہوتا ہے تو اسے حق قبول کرنے سے بہت دوری ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سننے سے اس کی سختی اور دل کا غباربڑھتا ہے اور جیسے سورج کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دِلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا اپنا شعار بنالیا ہے، وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں ،نمازوں کے بعد اللہ کا ذکر کرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں ، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں اور ان ذکر کی محفلوں سے بہت گھبراتے اور دور بھاگتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ گفتگو دل کی سختی ہے،اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور وہ ہو تا ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.