Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Az Zumar Ayat 9 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(59) | Tarteeb e Tilawat:(39) | Mushtamil e Para:(23-24) | Total Aayaat:(75) |
Total Ruku:(8) | Total Words:(1274) | Total Letters:(4795) |
{اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا: کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے تمام اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے ،آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت یعنی مغفرت اور جنت کی امید لگا رکھتا ہے ،وہ نافرمانی اور غفلت میں رہنے والے کی طرح ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمائیں کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ جب یہ برابر نہیں تو اطاعت گزار و فرمانبردار اور غافل و نافرمان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں ،لیکن اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں سے عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں نازل ہوئی اور حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار اور حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے حق میں نازل ہوئی ۔
رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں :
اس آیت سے ثابت ہوا کہ رات کے نوافل اور عبادت دن کے نوافل سے افضل ہیں ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رات کا عمل پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے وہ ریا سے بہت دور ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت دنیا کے کاروبار بند ہوتے ہیں اس لئے دن کے مقابلے میں دل بہت فارغ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور خشوع دن سے زیادہ رات میں مُیَسَّر آتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ رات کا وقت چونکہ راحت و آرام اور سونے کا ہوتا ہے اس لئے اس میں بیدار رہنا نفس کو بہت مشقت اور تکلیف میں ڈالتا ہے لہٰذا اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
مومن پر امید اور خوف کے درمیان رہنا لازم ہے :
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان ہو، اپنے عمل کی تقصیر پر نظر کرکے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے ۔دنیا میں بالکل بے خوف ہونا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مُطْلَقا ً مایوس ہونا یہ دونوں حالتیں قرآنِ کریم میں کفار کی بتائی گئی ہیں ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۳۲، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۵۰، ملتقطاً)
امید اور خوف کے درمیان رہنے کی فضیلت:
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے،وہ مرنے کے قریب تھا۔آپ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ (کی رحمت) کی امید بھی ہے اور گناہوں کا خوف بھی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب مومن کے دل میں اس موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا فرماتا ہے جس کی بندہ امید کرتا ہے اور اس چیزسے بے خوف کر دیتا ہے جس سے بندہ ڈرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
{قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟} اس آیت سے علم اورعلماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہے۔
علماء کے فضائل پر مشتمل4اَحادیث:
بکثرت اَحادیث میں بھی علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 4اَحادیث یہاں درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳ / ۹۲، الحدیث: ۳۹۶۰)
(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۶۴۱)
(3)… حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا،ان میں سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۳، الحدیث: ۲۶۹۴)
(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا’’تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، ۲ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.