Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Fatir Ayat 43 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(43) | Tarteeb e Tilawat:(35) | Mushtamil e Para:(22) | Total Aayaat:(45) |
Total Ruku:(5) | Total Words:(871) | Total Letters:(3191) |
{اِسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ: زمین میں بڑائی چاہنے اور برا مکروفریب کرنے کی وجہ سے (وہ ایمان نہ لائے)۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ زمین میں بڑائی چاہنے اوربرا مکروفریب کرنے کی وجہ سے حق و ہدایت سے کفارِ قریش کی نفرت میں ہی اضافہ ہوا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب کفار کے پاس تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو حق و ہدایت سے ان کی نفرت،ایمان لانے سے تکبر اور برامکرو فریب کرنے میں ہی اضافہ ہوا۔ برے مکر وفریب کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرک اورکفر ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ ا س سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مکرو فریب کرنا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۵۳۸)
تکبر کیسی بیماری ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبر وغرور ایسی بری بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نبی کی پیروی سے محروم رہتا ہے جبکہ بارگاہِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں عاجزی اور اِنکسار ی ایمان کا ذریعہ ہے ۔ کفارِ مکہ کے کفر کی وجہ یہی ہوئی کہ انہوں نے اپنے کو نبی سے بڑھ کر جانا اور بولے کہ ہم ان سے زیادہ مالد ار ہیں اور اکثر کفار نے نبیوں کو اپنے جیسے بشر کہا۔
{وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔} یعنی برا فریب مَکار پر ہی پڑتا ہے، چنانچہ فریب کاری کرنے والے بدر میں مارے گئے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲)
جو کسی کیلئے گڑھا کھودے تو خود ہی ا س میں گرتا ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت کعب اَحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے کہا ’’ تورات میں یہ آیت ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خودا س میں گر جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: ’’قرآن میں بھی ایسی آیت ہے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا:کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ آیت پڑھ لو:
’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)
فی زمانہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے اور سازشی لوگوں کی مدد کرنے کا مرض بہت عام ہے، کار و باری اور تاجر حضرات ایک دوسرے کے خلاف،نوکری پیشہ حضرات اپنے ساتھیوں کے خلاف، چھوٹے منصب والے بڑے منصب والوں کے خلاف اورہم منصب اپنے منصب والوں کے ساتھ ،اسی طرح گھریلو اور خاندانی نظامِ زندگی میں ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف، بیوی اور شوہر کے خلاف، ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے خلاف، یونہی ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے خلاف سازشیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے۔کسی کے خلاف سازش کرنے اور سازش کرنے والوں کی مدد کرنے کا انجام بہت برا ہے ۔
حضرت قیس بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سازش کرنے والے اور دھوکہ دینے والے جہنم میں ہیں ۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۶۶۵۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی کے خادم کو اس کے خلاف کیا تو وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۳۵۶، الحدیث: ۹۱۶۸)
امام زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کسی کے خلاف سازش نہ کرو اور نہ ہی کسی سازش کرنے والے کی مدد کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)
{ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ: تو وہ پہلے لوگوں کے دستورہی کا انتظار کررہے ہیں ۔} یہاں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفار آپ کو جھٹلا کر اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ جس طرح ان سے پہلے رسولوں کو جھٹلانے والوں پر عذاب نازل ہوا اسی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہو۔ ا س کے بعد فرمایا کہ رسولوں کو جھٹلانے والے کے بارے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دستور تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے وقت سے ٹلتا ہے بلکہ وہ لازمی طور پر پورا ہوتا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲، ملخصاً)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.