Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ghafir Ayat 16 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(60) | Tarteeb e Tilawat:(40) | Mushtamil e Para:(24) | Total Aayaat:(85) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1345) | Total Letters:(5040) |
{یَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ: جس دن وہ بالکل ظاہر ہوجائیں گے۔} یعنی قیامت کا دن وہ ہے جس دن لوگ قبروں سے نکل کر بالکل ظاہر ہوجائیں گے اور کوئی عمارت، پہاڑ ، چھپنے کی جگہ اور آڑ نہ پائیں گے کیونکہ اس دن زمین برابراور چٹیل میدان ہو جائے گی اور مخلوق کی کثرت کے باوجود ان کے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر تمام اعمال،اقوال اور احوال میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی اور وہ ان کے اچھے برے اعمال کے مطابق انہیں جزا اور سزا دے گا۔
یہاں خاص طور پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہونے کاذکر کیا گیا اگرچہ آج بھی لوگوں کا کوئی عمل، قول اور حال اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے،اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا میں کفار یہ خیال کیا کرتے تھے کہ’’ جب ہم کسی آڑ میں چھپ جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں نہیں دیکھتا اور ا س پر ہمارے اعمال پوشیدہ رہتے ہیں ‘‘ ا س پر بتا دیا گیا کہ آج تو وہ یہ خیال کر رہے ہیں ، لیکن قیامت کے دن وہ یہ خیال بھی نہ کر سکیں گے کیونکہ اس دن لوگوں کے لئے کوئی پردہ اور آڑ کی چیز نہ ہوگی جس کے ذریعے سے وہ اپنے خیال میں بھی اپنے حال کو چھپا سکیں اور اس دن انہیں بھی یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۶۷، تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۹ / ۴۹۹-۵۰۰، ملتقطاً)
چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن لوگوں کے تمام اعمال اور احوال ظاہر ہو جائیں گے خواہ دنیا میں وہ کتنے ہی پوشیدہ ہوں اور وہ دن چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن ہے ،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ(۱) وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ(۲) وَ قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَاۚ(۳) یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ(۴) بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَاؕ(۵) یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ﳔ لِّیُرَوْا اَعْمَالَهُمْؕ(۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ‘‘( زلزال:۱۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب زمین اپنے زلزلے کے ساتھ تھرتھرا دی جائے گی۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے گی۔ اور آدمی کہے گا: اسے کیا ہوا؟ اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔ اس لیے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔ تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِۙ(۹) وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِۙ(۱۰) اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ‘‘(عادیات:۹۔۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ نہیں جانتا جب وہ اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں ؟ اور جو سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی۔ بیشک ان کا رب اس دن ان کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے چھپ کر گناہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی اپنے اعمال اور احوال پر غور کرنا چاہئے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ قیامت کے دن جب ا ن کے خفیہ اعمال ظاہر کر دئیے جائیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنا خوف نصیب کرے اور اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ: آج کس کی بادشاہی ہے؟۔} آیت کے اس حصے کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج کس کی بادشاہی ہے؟ اب جواب دینے والاکوئی نہ ہوگا ،تو اللہ تعالیٰ خود ہی جواب میں فرمائے گا :ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ قیامت کے دن جب تمام اَوّلین و آخرین حاضر ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا: آج کس کی بادشاہی ہے ؟ تمام مخلوق جواب دے گی:ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔مومن تو یہ جواب بہت لذت کے ساتھ عرض کریں گے کیونکہ وہ دنیا میں یہی اعتقاد رکھتے تھے ، یہی کہتے تھے اور اسی کی بدولت انہیں مرتبے ملے اور کفار ذِلّت و ندامت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے اور دنیا میں اپنے منکر رہنے پر شرمندہ ہوں گے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۶۹، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہو گی:
آیت کی مناسبت سے یہاں دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے دائیں دست ِ قدرت سے زمین کو اپنے ہی قبضے میں لے گا اور آسمان کو لپیٹ لے گا، پھرفرمائے گا:حقیقی بادشاہ میں ہوں ،آج زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟( صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب یقبض اللّٰہ الارض، ۴ / ۲۵۱، الحدیث: ۶۵۱۹)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ دے گا۔ پھر انہیں اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) دائیں ہاتھ میں لے گا، پھر ارشادفرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر والے لوگ؟ پھر زمینوں کو اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھرارشاد فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ،کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر و غرور کرنے والے لوگ۔( مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنّار، ص۱۴۹۹، الحدیث: ۲۴(۲۷۸۸))
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.