Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Hud Ayat 47 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(52) | Tarteeb e Tilawat:(11) | Mushtamil e Para:(11-12) | Total Aayaat:(123) |
Total Ruku:(10) | Total Words:(2140) | Total Letters:(7712) |
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ:عرض کی: اے میرے رب !میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔} جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تربیت ہوئی تو آپ نے عرض کی :اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ اسے حاصل کرنا حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں اور اگر تو نے میرے اُس سوال پر میری مغفرت نہ فرمائی اور میری عرض قبول فرما کر میرے اوپر رحم نہ فرمایا تو میرا شمار بھی نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائے گا۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۳۹-۱۴۰)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں :
اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ رضا بالقضاء پر فائز ہونے کا بڑا پیارا اِظہار ہے کہ سگا بیٹا نگاہوں کے سامنے ہلاک ہوا اور وعدہ ِ الٰہی کے پیشِ نظر دعا فرمائی لیکن حقیقتِ حال معلوم ہونے اور اللہ تعالیٰ کے تنبیہ فرمانے سے فورا ًعاجزی کے ساتھ اپنی مغفرت اور رحمِ الٰہی کی دعا مانگنا شروع کردی۔ سُبْحَانَ اللہ، سُبْحَانَ اللہ۔ اے اللہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقے ہمیں بھی تیری قضاپر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اُ س چیز کا مطالبہ کر کے جس کے بارے میں وہ جانتے نہ تھے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کیا ا س کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کے گھر والوں کو نجات عطا فرمائے گا، اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ سمجھا کہ ان کابیٹا بھی چونکہ ان کے گھر والوں میں سے ہے اس لئے یہ بھی ان نجات پانے والوں میں شامل ہے، جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تربیت فرمائی تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے فعل پر دل میں ندامت محسوس ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا سوال کیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا درخت سے کھانے والا معاملہ اوریہ گناہ نہیں بلکہ ان کا تعلق حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقرَّبِیْنَ(نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں )سے ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۹۱۶)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.