Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Luqman Ayat 12 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(57) | Tarteeb e Tilawat:(31) | Mushtamil e Para:(21) | Total Aayaat:(34) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(612) | Total Letters:(2136) |
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعارف:
مشہور مؤرخ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نسب یہ ہے’’ لقمان بن ناعوریا باعور بن ناحور بن تارخ۔ حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بھانجے تھے جبکہ مفسر مقاتل نے کہا کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خالہ کے فرزند تھے ۔ آپ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ پایا اور اُن سے علم حاصل کیا ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعلانِ نبوت سے پہلے فتویٰ دیا کرتے تھے اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوّت کے مَنصب پر فائز ہوئے تو حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فتویٰ دینا بند کر دیا۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نبی ہونے میں اختلاف ہے، اکثر علماء اسی طرف ہیں کہ آپ حکیم تھے نبی نہ تھے۔( بغوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۲۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، ملتقطاً)
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نبی نہیں تھے بلکہ وہ غوروفکرکرنے والے اوردولت ِیقین سے مالامال بندے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے محبت تھی اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت کی نعمت عطافرمائی تھی۔ایک مرتبہ دوپہر میں سوتے ہوئے انہیں ندا کی گئی:’’اے لقمان!اگرتم پسند کروتوتمہیں خلیفہ بنادیاجائے تاکہ تم عدل وانصاف کو قائم کرو۔‘‘انہوں نے ندا کا جواب دیتے ہوئے عرض کی:اگرتومجھے اختیارکاحق ہے تومیں عافیت کوقبول کروں گااوراس آزمائش سے بچوں گا اور اگر منصبِ خلافت سنبھالنے کے متعلق قطعی حکم ہے تومیں دل وجان سے حاضرہوں کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے کرم پریہ بھروسہ ہے کہ وہ مجھے غلطی سے بچائے گا۔(تفسیر ثعلبی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۳۱۲، ابن عساکر، حرف الدال، ذکر من اسمہ داود، داود بن ایشا۔۔۔ الخ، ۱۷ / ۸۵-۸۶، ملتقطاً)
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے دو فضائل:
یہاں حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں کے سردار چار ہیں : (1)حضرت لقمان حبشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3)حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (4)حضرت مہجع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ۔( ابن عساکر، حرف البائ، ذکر من اسمہ بلال، بلال بن رباح۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۴۶۲)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں کی صحبت اختیار کرو کیونکہ ان میں سے تین حضرات اہلِ جنت کے سرداروں میں سے ہیں ، (1)حضرت لقمان حکیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3) مُؤذن حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ۔( معجم الکبیر، عطاء عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۵۸، الحدیث: ۱۱۴۸۲)
حکمت کی تعریف:
حکمت کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں ،ان میں سے چار درج ذیل ہیں ۔
(1)… حکمت عقل اورفہم کو کہتے ہیں ۔
(2)… حکمت وہ علم ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے ۔
(3)… حکمت معرفت اور کاموں میں پختگی کو کہتے ہیں
(4)… حکمت ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جس کے دل میں رکھتا ہے یہ اس کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۷۰)
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکمت آمیز کلمات:
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حکمت سے بھرپور گفتگو فرمایاکرتے تھے،یہاں ان کے حکمت بھرے 3 کلام ملاحظہ ہوں ،
(1)…لوگوں پر وہ چیز دراز ہوگئی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے حالانکہ وہ آخرت کی طرف دوڑے جارہے ہیں ۔ بیشک دنیا پیٹھ پھیر رہی ہے تا کہ وہ چلی جائے اور آخرت سامنے آ رہی ہے اور وہ گھر جس کی طرف تم جارہے ہو، اُس سے زیادہ قریب ہے جس سے تم نکل رہے ہو ۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الثانی من کتاب الزہد، فصل آخر فی قصر الامل والمبادرۃ بالعمل۔۔۔ الخ، ص۲۰۱، روایت نمبر: ۵۰۱)
(2)…علماء کے ساتھ لازمی طور پر بیٹھا کرو اور حکمت والوں کا کلام سنا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ دل کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش کے قطروں سے ۔( معجم الکبیر ، صدی بن عجلان ابو امامۃ الباہلی ۔۔۔ الخ ، عبید اللّٰہ بن زحر عن علی بن یزید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۹۹ ، الحدیث: ۷۸۱۰)
(3)…تم اس مرغے سے زیادہ عاجز نہ ہو جاؤ جو صبح سویرے آواز لگاتا ہے جبکہ تم اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہو۔( شرح السنہ، ابواب النوافل، باب احیاء آخر اللیل وفضلہ، ۲ / ۴۸۰)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکمت بھرے ارشادات:
یوں تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر ارشاد حکمت کے انمول موتیوں سے بھرا ہوا ہے،البتہ موضوع کی مناسبت سے یہاں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے4حکمت بھرے ارشادات ملاحظہ ہوں :
(1)…حکمت کی اصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۰، الحدیث: ۷۴۴)
(2)…جو تھوڑا ہو اور کافی ہو وہ اس سے اچھا ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۸ / ۱۶۸، الحدیث: ۲۱۷۸۰)
(3)… تقویٰ اختیار کرو تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے اور قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، ۴ / ۴۷۵، الحدیث: ۴۲۱۷)
(4)…خوش نصیب وہ ہے جودوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔( مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۳(۲۶۴۵))
{وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۷۵، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۴۶، ملتقطاً)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.