Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Maryam Ayat 71 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(44) | Tarteeb e Tilawat:(19) | Mushtamil e Para:(16) | Total Aayaat:(98) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(1085) | Total Letters:(3863) |
{وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا:اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔} اس آیت سے متعلق مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 3قول درج ذیل ہیں :
(1)… اس آیت میں کافروں سے خطاب ہے( اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں داخل ہونا ہے۔)
(2)… اس میں خطاب تمام لوگوں سے ہے اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں داخل ہونا ہے البتہ (جنت میں جانے والے) مسلمانوں پر جہنم کی آگ ایسے سرد ہو جائے گی جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دنیا میں آگ سرد ہوئی تھی اور ان کا یہ داخلہ عذاب پانے کے طور پر نہ ہو گا اور نہ ہی یہ وہاں خوفزدہ ہوں (بلکہ ان کا یہ داخلہ صرف اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تصدیق کے لئے ہوگا۔)( تاویلات اہل السنہ، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۲۷۴-۲۷۵)
(3)…علامہ ابوحیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں خطاب عام مخلوق سے ہے (یعنی اس خطاب میں نیک و بد تمام لوگ داخل ہیں ) اور جہنم پر وارد ہونے سے (نیک و بد) تمام لوگوں کا جہنم میں داخل ہونا مراد نہیں (بلکہ اس سے مراد جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے،جیسا کہ ) حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے روایت ہے کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو کہ جہنم کے او پر بچھایا گیا ہے۔( البحر المحیط، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۱۹۷)
{كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا: یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔} یعنی جہنم پر وارد ہونا اللہ تعالیٰ کا وہ حتمی فیصلہ ہے جو اس نے اپنے تمام بندوں پر لازم کیا ہے۔
پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں :
اس آیت کی تفسیر میں پل صراط سے گزرنے کا بھی ذکر ہوا، اس مناسبت سے یہاں پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں ملاحظہ ہوں ، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صراط حق ہے ۔یہ ایک پل ہے کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا۔ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔ سب سے پہلے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ گزر فرمائیں گے، پھر اور اَنبیا و مُرسَلین، پھر یہ اُمت پھر اور اُمتیں گزریں گی اور حسبِ اِختلافِ اعمال پل صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہوا کی طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض شخص سرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے ( اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے) لٹکتے ہوں گے، جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اُسے پکڑلیں گے، مگر بعض تو زخمی ہو کرنجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے اور یہ ہلاک ہوا۔ یہ تمام اہلِ محشر تو پل پر سے گزرنے میں مشغول، مگر وہ بے گناہ، گناہگاروں کا شفیع پل کے کنارے کھڑا ہوا بکمالِ گریہ وزاری اپنی اُمتِ عاصی کی نجات کی فکر میں اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے: ’’رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘‘ اِلٰہی! ان گناہگاروں کو بچالے بچالے۔ اور ایک اسی جگہ کیا! حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اُس دن تمام مواطن میں دورہ فرماتے رہیں گے، کبھی میزان پر تشریف لے جائیں گے، وہاں جس کے حسنات میں کمی دیکھیں گے، اس کی شفاعت فرما کر نجات دلوائیں گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں ، پیاسوں کو سیراب فرما رہے ہیں اور وہاں سے پل پر رونق افروز ہوئے اور گرتوں کو بچایا۔ غرض ہر جگہ اُنھیں کی دوہائی، ہر شخص اُنھیں کو پکارتا، اُنھیں سے فریاد کرتا ہے اور اُن کے سوا کس کوپکارے۔۔۔؟! کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں ہے، دوسروں کو کیا پوچھے، صرف ایک یہی ہیں ، جنہیں اپنی کچھ فکر نہیں اور تمام عالَم کا بار اِن کے ذمے۔( بہار شریعت، حصہ اول، معاد وحشر کا بیان، ۱ / ۱۴۷-۱۴۹)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس وقت کی منظر کَشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
کچھ خبر بھی ہے فقیرو آج وہ دن ہے کہ
وہ نعمتِ خُلد اپنے صَدقے میں لٹاتے جائیں گے
خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے
خود وہ گر کر سجدہ میں تم کو اٹھاتے جائیں گے
آنکھ کھولو غمزدو دیکھو وہ گِریاں آئے ہیں
لَوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں گے
پائے کوباں پل سے گزریں گے تری آواز پر
رَبِّ سَلِّمْ کی صَدا پر وَجد لاتے جائیں گے
پل صراط کاخوفناک منظر:
یاد رہے کہ پل صراط سے گزرنے کا مرحلہ انتہائی مشکل اور اس کا منظر بہت خوفناک ہے، امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (جب قیامت کے دن ) لوگوں کو پل صراط کی طرف لے جایا جائے گا جو کہ جہنم کے اوپر بنایا ہوا ہے اور وہ تلوار سے زیادہ تیز، بال سے زیادہ باریک ہے۔ تو جو شخص اس دنیا میں صراطِ مستقیم پر قائم رہا وہ آخرت میں پل صراط پر ہلکا ہوگا اور نجات پاجائے گا اور جو دنیا میں اِستقامت کی راہ سے ہٹ گیا، گناہوں کی وجہ سے اس کی پیٹھ بھاری ہوئی اور وہ نافرمانی کرتا رہا تو پہلے قدم پر ہی وہ پل صراط سے پھسل کر (جہنم میں ) گر جائے گا۔ تو اے بندے! ذرا سوچ کہ اس وقت تیرا دل کس قدر گھبرائے گا جب تو پل صراط اور اس کی باریکی دیکھے گا، پھر اس کے نیچے جہنم کی سیاہی پر تیری نظر پڑے گی، اس کے نیچے آگ کی چیخ اور اس کا غصے میں آنا سنے گا اور کمزور حالت کے باوجود تجھے پل صراط پر چلنا ہوگا، چاہے تیرا دل بے قرار ہو، قدم پھسل رہے ہوں اور پیٹھ پر اتنا وزنی بوجھ ہو جو زمین پر چلنے سے رکاوٹ ہے۔ نیز پل صراط کی باریکی پر چلنا تو ایک طرف رہا، اس وقت تیری کیا حالت ہوگی، جب تو اپنا ایک پاؤں اِس پل پر رکھے گا اور اس کی تیزی کو محسوس کرے گا، لیکن (نہ چاہتے ہوئے بھی) دوسرا قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا اور تیرے سامنے لوگ پھسل پھسل کر گر رہے ہوں گے اور جہنم کے فرشتے انہیں کانٹوں اور مڑے ہوئے سرے والے لوہے سے پکڑ رہے ہوں گے اور تو ان کی طرف دیکھ رہا ہوگا کہ وہ کس طرح سر نیچے اور پاؤں اوپر کئے ہوئے جہنم میں جارہے ہوں گے تو یہ کس قدر خوفناک منظر ہوگا اور تجھے سخت مقام پر چڑھائی کرنی اور تنگ راستے سے گزرنا ہوگا۔ تو اپنی حالت کے بارے میں سوچ کہ جب تو اس پر چلے گا اور چڑھے گا اور بوجھ کی وجہ سے تیری پیٹھ بھاری ہو رہی گی اور اپنے دائیں بائیں لوگوں کو جہنم میں گرتے ہوئے دیکھ رہا ہو گا۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اے میرے رب! بچالے ،اے میرے رب ! بچالے، پکار رہے ہوں گے، تباہی اور خرابی کی پکار جہنم کی گہرائی سے تیری طرف آرہی ہوگی، کیونکہ بے شمار لوگ پل صراط سے پھسل چکے ہوں گے ،اس وقت اگر تیرا قدم بھی پھسل گیا تو کیا ہوگا…؟اس وقت ندامت بھی تجھے کوئی فائدہ نہ دے گی اور تو بھی ہائے خرابی، ہائے ہلاکت پکار رہا اور یوں کہہ رہا ہو گا کہ میں اسی دن سے ڈرتا تھا ،کاش !میں نے اپنی (اس) زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔ کاش! میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا ہوتا۔ ہائے افسوس ! میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ کاش! میں مٹی ہو گیا ہوتا۔ کاش ! میں بھولا بسرا ہوجاتا۔ کاش! میری ماں نے ہی مجھے پیدا نہ کیا ہوتا۔ اس وقت آگ کے شعلے تجھے اچک لیں گے اور ایک منادی اعلان کردے گا’’اِخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ‘‘دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔(مومنون:۱۰۸) اب چیخنے چلانے، رونے، فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے سوا تیرے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔
اے بندے! تو اس وقت تو اپنی عقل کو کس طرح دیکھتا ہے حالانکہ یہ تمام خطرات تیرے سامنے ہیں ؟ اگر تیرا ان باتوں پر عقیدہ نہیں تو ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ تو دیر تک (یعنی ہمیشہ کیلئے) کفار کے ساتھ جہنم میں رہنا چاہتا ہے اور اگر تو ان باتوں پر ایمان رکھتا ہے لیکن غفلت کا شکار ہے اور اس کے لیے تیاری میں سستی کا مظاہرہ کررہا ہے تواس میں تیرا نقصان اور سرکشی کتنی بڑی ہے۔ ایسے ایمان کا تجھے کیا فائدہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نافرمانی چھوڑنے کے ذریعے تجھے اس کی رضا جوئی کی خاطر کوشش کی ترغیب نہیں دیتا، اگر بالفرض تیرے سامنے پل صراط سے گزرنے کے خوف سے پیدا ہونے والی دل کی دہشت کے سوا کچھ نہ ہو، اگرچہ تو سلامتی کے ساتھ ہی گزرجائے تو یہ ہولناک خوف اور رعب کیا کم ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۵)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : قیامت کے ہولناک حالات میں وہی شخص زیادہ محفوظ ہوگا جو دنیا میں اس کی فکر زیادہ کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک بندے پر دو خوف جمع نہیں کرتا، تو جو آدمی دنیا میں ان خوفوں سے ڈرا وہ آخرت کے دن ان سے محفوظ رہے گا، اور خوف سے ہماری مراد عورتوں کی طرح کا خوف نہیں ہے کہ سنتے وقت دل نرم ہوجائے اور آنسو جاری ہو پھر جلد ہی اسے بھول جاؤ اور اپنے کھیل کود میں مشغول ہوجاؤ ،کیونکہ اس بات کا خوف سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جو آدمی کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بھاگتا ہے اور جو شخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے وہ اسے طلب کرتا ہے ،تو تجھے وہی خوف نجات دے گا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکے اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرے۔ نیزعورتوں کی طرح دل نرم ہونے سے بھی بڑھ کر بے وقوفوں کا خوف ہے کہ جب وہ ہَولناک مَناظِر کے بارے میں سنتے ہیں تو فوراً ان کی زبان پر اِستعاذہ (یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰہ)جاری ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں میں اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ یااللّٰہ! بچالینا، بچالینا۔ اس کے باوجود وہ گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں جو ان کی ہلاکت کا باعث ہیں ۔ شیطان ان کے پناہ مانگنے پر ہنستا ہے جس طرح وہ اس آدمی پر ہنستا ہے جسے صحرا میں کوئی درندہ پھاڑنا چاہتا ہو اور اس کے پیچھے ایک قلعہ ہو ،جب وہ دور سے درندے کی داڑھوں اور اس کے حملہ کرنے کو دیکھے تو زبان سے کہنے لگے کہ میں اس مضبوط قلعے میں پناہ لیتا ہوں اور اس کی مضبوط دیواروں اور سخت عمارت کی مدد چاہتا ہوں اور وہ یہ کلمات اپنی جگہ بیٹھے ہوئے صرف زبان سے کہتا رہے تو یہ بات کس طرح اسے درندے سے بجائے گی…؟ تو آخرت کا بھی یہی حال ہے کہ اس کا قلعہ صرف سچے دل سے ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا ہے اور سچائی کا معنی یہ ہے کہ اس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ ہو اور اس کے علاوہ کوئی مقصود و معبود نہ ہو، اور جو شخص اپنی خواہش کو معبود بنالیتا ہے تو وہ توحید میں سچائی سے دور ہوتا ہے اور اس کا معاملہ خود خطرناک ہے۔ اگر تم ان باتوں سے عاجز ہو تو اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرنے والے بن جاؤ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی تعظیم کے حریص ہوجاؤ۔ امت کے نیک لوگوں کے دلوں کی رعایت کا شوق رکھنے والے ہوجاؤ اور ان کی دعاؤں سے برکت حاصل کرو تو ممکن ہے کہ تمہیں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان نیک لوگوں کی شفاعت سے حصہ ملے اور اس وجہ سے تم نجات پاجاؤ اگرچہ تمہاری پونجی کم ہو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۶-۲۸۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض گزار ہیں کہ
یا الٰہی جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نورُالہُدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غمزُدا کا ساتھ ہو
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.