Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Muhammad Ayat 4 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(95) | Tarteeb e Tilawat:(47) | Mushtamil e Para:(26) | Total Aayaat:(38) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(615) | Total Letters:(2400) |
{فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ: تو جب کافروں سے تمہارا سامناہوتو گردنیں مارو۔} یعنی جب کافروں اور ایمان والوں کا حال یہ ہے جو بیان ہوا ،تو اے ایمان والو!جب کافروں کے ساتھ تمہاری جنگ ہوتواس دوران لڑنے والے کافروں کی کوئی رعایت نہ کرو بلکہ انہیں قتل کرویہاں تک کہ جب تم انہیں کثرت سے قتل کر لو(جس کی حد یہ ہے کہ کافروں کا زورٹوٹ جائے اور مسلمانوں پر غالب آنے کا امکان نہ رہے) اور باقی رہ جانے والوں کو قید کرنے کا موقع آجائے تواس وقت انہیں مضبوطی سے باندھ دو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں ۔قید کرنے کے بعد تمہیں دو باتوں کا اختیار ہے ، چاہے ان قیدیوں پر احسان کرکے انہیں کوئی فدیہ لئے بغیرچھوڑ دو ،یاان سے فدیہ لے لو ۔یہ قتل اور قید کرنے کا حکم اس وقت تک ہے کہ لڑائی کرنے والے کافراپنا اسلحہ رکھ دیں اوراس طرح جنگ ختم ہوجائے کہ مشرکین مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلیں یا اسلام لائیں ، اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے ۔( مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۳۳، روح المعانی، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۱۳ / ۲۷۲-۲۷۷، ملتقطاً)
{وَ لَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ: اور اللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لے لیتا۔} یہاں جہاد کا حکم دینے کی حکمت بیان کی جا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو جنگ کے بغیر ہی کافروں کو زمین میں دھنسا کر ،یا ان پر پتھر برسا کر، یا اور کسی طرح خود ہی اُن سے بدلہ لے لیتا (جیسا کہ پچھلی قوموں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے)لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا بلکہ اس نے تمہیں جہاد کا حکم دیا تاکہ کافروں کے ذریعے مومنوں کو جانچے (کہ وہ اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یا نہیں ) کیونکہ اگر وہ جہاد کرتے ہیں تو عظیم ثواب کے مستحق ہو جائیں گے اور دوسری طرف مومنوں کے ذریعے کافروں کو جانچے ( کہ وہ حق کا اقرار کرتے ہیں یا نہیں اور اس میں یہ بھی حکمت ہے) کہ تمہارے ہاتھوں انہیں کچھ عذاب جلدی پہنچ جائے اور ان میں سے بعض کافر اس سے نصیحت حاصل کرکے اسلام قبول کرلیں ۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴۹۹-۵۰۰، روح المعانی، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۱۳ / ۲۷۷، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی جانچ سے کیا مراد ہے؟
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم سے جانتا ہے کہ کون سا مسلمان اس کی راہ میں جہاد کرے گا اور کون سا کافر اسلام قبول کرے گا اور یہاں اللہ تعالیٰ کے جانچنے سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے معلوم نہ تھا اور اس جانچ کے ذریعے اسے معلوم ہوا ، بلکہ اس جانچ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ فرماتا ہے جیسا امتحان لینے اور آزمانے والا کرتا ہے تاکہ فرشتوں اور جنّ و اِنس کے سامنے معاملہ ظاہر ہوجا ئے۔
{وَ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے۔} جنگ کے دوران چونکہ مسلمان شہیدبھی ہوتے ہیں اس لئے یہاں سے شہیدوں کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کے عمل ضائع نہیں فرمائے گا بلکہ ان کے اعمال کا ثواب پورا پورا دے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں بلند درجات کاراستہ دکھائے گا اوران کے اعمال قبول کر کے ان کے حال کی اصلاح فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل فرمائے گا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی پہچان کروادی تھی اس لئے وہ جنت کی منازِل میں اس نا آشنا کی طرح نہ پہنچیں گے جو کسی مقام پر جاتا ہے تو اسے ہر چیز کے بارے میں دریافت کرنے کی حاجت درپیش ہوتی ہے بلکہ وہ واقف کاروں کی طرح داخل ہوں گے ، اپنے منازِل اور مساکِن پہچانتے ہوں گے ، اپنی زوجہ اور خُدّام کو جانتے ہوں گے ، ہر چیز کا مقام ان کے علم میں ہوگا گویا کہ وہ ہمیشہ سے یہیں کے رہنے بسنے والے ہیں۔( ابن کثیر ، محمد ، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۷ / ۲۸۵-۲۸۶، مدارک ، محمد، تحت الآیۃ: ۴-۶، ص۱۱۳۴، بغوی، محمد، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۴ / ۱۶۲، ملتقطاً)
شہید کے فضائل:
احادیث میں بھی شہید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،یہاں ان میں سے دو احادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت مِقْدام بن مَعدیکَرِب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کی چھ خصلتیں ( یعنی درجے) ہیں ،(1) پہلی ہی دفعہ میں اسے بخش دیا جاتا ہے۔ (2) اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3) اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ (4) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یا قوت دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہوگا۔ (5) 72حورِعِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا ۔(6) او راس کے 70 قریبی رشتہ داروں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۵۰، الحدیث: ۱۶۶۹)
(2)… حضرت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شہید کو چھ خصلتیں عطا کی جاتی ہیں (1)اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں ۔ (2)اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3)حورِ عِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔(4،5) بڑی گھبراہٹ اور قبر کے عذاب سے امن میں رہے گا۔(6)اسے ایمان کا حُلّہ پہنایا جائے گا۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث قیس الجذامی رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۲۳۴، الحدیث: ۱۷۷۹۸)
اہل جنت اپنے مقام اورجنتی نعمتوں کو پہچانتے ہوں گے :
آیت نمبر6میں شہید کے بارے میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں ان کے مقام اور نعمتوں کی پہچان کروا دی تھی اور حدیثِ پاک میں عام جنتیوں کے بارے میں بھی اسی طرح کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مومنین دوزخ سے نجات پاجائیں گے جنت اوردوزخ کے درمیان ایک پل ہے اس پران کوروک لیاجائے گا پھر دنیا میں ان میں سے بعض نے بعض پرجوزیادتی کی ہوگی اس کاان سے بدلہ لیاجائے گاحتّٰی کہ وہ بالکل پاک وصاف ہوجائیں گے توپھران کوجنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی پس اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان ہے ان میں سے ایک شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کودنیامیں اپنے ٹھکانے کی بہ نسبت زیادہ پہچاننے والاہوگا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، ۴ / ۲۵۶، الحدیث: ۶۵۳۵)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.