شبِ براءت کے پٹاخے
شبِ براءت کے پٹاخے
شعبان اسلامی مہینوں میں آٹھویں نمبر پر آنے والا مہینا ہے لیکن اپنی لفظی معنویت اور اہمیت کے پیش نظر اس کا شمار ان خا ص مہینوں میں ہوتا ہے جن کاچاند دیکھنا واجب کفایہ ہے۔اس مہینے کے نام سے ہی اس کی اہمیت کا انداز ہوتا ہےکہ اس میں عبادت گزا ر کو شرف وعزت، ،علومرتبت، احسان ونیکی کی توفیق، الفت الٰہی اور قلبی وباطنی نوارنیت کی عطاکے سا تھ ظاہری طور پر بھی رحمت الٰہی کے اثرات اس کے جسمانی خدوخال پر نظر آتے ہیں ۔شعبان المعظم میں عبادت گزار، نیکوکار،خیر کا طلبگار، بھلائی کی خواستگار، اچھائی کاخوگر اپنے ان نیک اعمال کی آبیاری کرتا ہےجن کے بیج رجب المرجب میں بوتا ہے، اس مہینے آخرت کوسنوارنےوالا خیر اور بھلائی کے راستے پر چلنے کےلئے کمربستہ ہوتاہے،اپنے ارادوں کو نیکی سے بہر پوراعمال کی بجاآوری کےلئے عملی جامہ پہناتا ہے کیونکہ اس مہینے عطائے خداوندی کی بے بہا بارشیں اعمال صالحہ کرنے والوں پر چھماچھم برستی ہیں۔نیکی کی توفیق ارزاں ہوتی ہے ،قرآن کی تلاوت سے بنجر زمیں کو سیراب کیا جاتاہے،ذکراللہ سے قلب کی صفائی کااہتمام ہوتاہے اوراس سے متصل مہینے رمضان المبارک کے استقبال کےلئے حسنات سے جسم کی طہارت کا سامان کیاجاتاہے۔اصحاب رسول کے بارے میں آتا ہےکہ وہ شعبان المعظم کے آغاز سے ہی دنیا وی معمولات سے فارغت پاکر اپنے جسموں کو عبادات کا عادی بنانےکےلئے تلاوت قرآن، کثرت نوافل ،توبہ واستغفا ر اور تسبیحات وتکبیرات میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔تعظیم شعبان کی پاسداری سےمسلمانوں پر رحمت الہی کا ایسا نزول ہوتا ہے جیسے پہاڑوں کی چوٹیوں سے تیز رفتار میں آنے والا پانی گھاٹی میں جمع ہوکر سکون پزیر ہوتاہےایسے ہی شعبان کی عظمت کی پیش نظر اس کی تعظیم کرنے والے پر رحمت الہی موسلادھار بارش کی طرح برس کر مؤمن کی دل میں قرار پزیر ہوتی ہےجس سے عبادت کی کلیاں پھوٹی ہے نیکی کے ثمرات لگتے ہیں ۔ایک حدیث میں شعبان کی وجہ تسمیہ کو بیان کرتے ہوئے رسولُ الله صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا سُمِّىَ شَعْبَانُ لِاَنَّهٗ يَنْشَعِبُ فِيْهِ خَيْرٌ كَثِيْرٌ لِلصَّائمِِ فِيْهِ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّة ، یعنی اس مہینے کو “ شعبان “ اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ رکھنے والے کے لئے بہت سی بھلائیاں(شاخوں کی طرح)پھوٹتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جنت میں جاپہنچتا ہے ۔( التدوین فی اخبار قزوین ، 1 / 153)
رجب اوررمضان کے بیچ میں تشریف فرما شعبان میں عبادت کرنے کی اہمیت اور فضیلت کےبارے میں بہت سارے فرامین رسول احادیث مبارکہ میں موجود ہیں اور خود سرکار دوعالم کا معمول شریف تھاکہ اس مہینے کثرت سےروزے رکھا کرتے تھے ۔ ایک ارشاد گرامی میں آپ نے فرمایا :’’ جب ماہِ شعبان آجائے تو اپنے جسموں کو پاکیزہ اور اپنی نیتوں کو اچھا رکھو ۔ ‘‘
(مکاشفۃ القلوب ، الباب الحادی بعد المائۃ فی فضل شعبان المبارک،303)
اسلامی مہینا شعبان استغفار، توبہ کرنے اور اللہ کی رحمت پانے کا مہینے ہے لہذا اس عظمت والے مہینے میں اپنے آپ کو نیک اعما ل سے محروم رکھنا اتنہائی محرومی اور بد نصیبی ہےوہ لوگ غفلت میں ہےجو اس مہینے کو پانے کے باوجود اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔اس مہینے کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاتا ہےکہ اس مہینے میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس میں آنے والی زندگی کےاعمال صفحہ نامہ اعمال پر مرتب ہوتے ہیں ،گزشتہ سال کی ساری کارکردگیاں پیش خداوندی ہوتی ہیں، سال گزشتہ کےاعمال کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے اور نئے سال کی شروعات نئے اعمال سے ہوتی ہیں۔اب غورطلب بات ہےکہ شعبان کے شروع ہوتےہی کیا ہم توبہ و استغفار سے اپنے اعمال کی بدکاریایوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ نصف شعبان جب نامہ اعمال کادفتر لپیٹا جائے تو ہمارے دفتر اعمال میں سیاہ کاریوں کی جگہ نیکیاں درج کردی گئیں ہوں اور ہم اپنے رب کے حضور سرخرو ہوں یا اس عظمت نشان مہینے کو بھی غفلت میں گزاردیں اور جب فصل کی کٹائی کا مہینے آئے تو ہم پر گناہوں کا اتنا بوجھ ہوکہ ہم رمضان المبارک کو بھی عبادت میں سستی کرتے ایسے گزاریں کہ بخشش کا سامان بھی ناہوسکے۔الامان الحفیظ۔اے لوگو! اپنے آپ کو گناہوں سے بچاؤ ، نیکی کے راستے پر چلو ،اس مہینے میں تلاوت قرآن کثرت سے کروتاکہ انوار الہی کی تجلی سے سینے کے کینے دور ہوجائیں ، غفلت کی چادر تن سے جداہوجائے اور بدن پر عبادت کی لذت اور کیف کے اثرات ایسے مرتب ہوں کہ پھر دل گناہوں کی طرف نا للچائے۔
تلاوت قرآن کے مہینے شعبان کےبارے میں حضرت الحسن بن سھل رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہفرماتے ہیں : ماہِ شعبان نے عرض کی : یَا رَبِّ جَعَلْتَنِیْ بَیْنَ شَہْرَیْنِ عَـظِیْمَیْنِ فَمَا جَعَلْتَ لِـیْ یعنی اے میرے رَبّ! تونے مجھے دو عظمت والے مہینوں (ماہِ رجب اور ماہِ رمضان)کے درمیان رکھا ہے تو تُونے میری کیا فضیلت رکھی؟ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : جَعَلْتُ فِیْکَ تِلَاوَۃَ الْقُراٰنِ یعنی میں نے تجھ میں قرآنِ پاک کی تلاوت رکھ دی۔
(لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف، ص ۲۵۹)
رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شعبانُ الْمُعظَّم کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے: شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اللہ۔ یعنی شعبان میرا مہیناہے اور رَمضان اللہ کا مہینا ہے۔
(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۰۱حدیث۴۸۸۹،آقا کا مہینا، ص۲)
شعبان المعظم کی اہمیت نسبت رسول ملنے کی وجہ سے مزید دوچند ہو جاتی ہے پھر اس مہینے میں شب براءت یعنی عظمت وشان والی رات بھی آتی ہے جس کی فضیلت کےبارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہےحصول برکت کےلئے شب براءت کی فضیلت اور وظائف کے حوالے کچھ نگارشات ویب سائٹ پر پیش کی جاتی ہیں۔
شعبان کی پندرہویں رات کو شب براءت یعنی جہنم سے نجات دینے والی رات کہا جاتاہےاس کےعلاوہ اس رات کو برکت والی رات، گزشتہ زندگی کے نامہ اعما ل کی پیشی کی رات، رحمت خداوندی کی رات،عطائے رب ذی الجلال و الاکرام کی رات، گناہوں کو مٹانے والی رات، قبولیت دعا کی رات، زندگی بخشنے والی رات،شفاعت کی رات، تعظیم کی رات، قدر ومنزلت والی رات،آسمان دنیاسے خاکدان گیتی پر نزول رحمت الہی کی رات اور فرشتوں کی رات بھی کہا جاتا ہے۔حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: کہ جس طرح اہل ایمان کےلئے عید الفطر اور عید الاضحی کی چاند رات مسرت و شادمانی کا باعث ہوتی ہیں اسی طرح فرشتوں کےلئے بھی دو راتیں عید کی رات کہلاتی ہیں اور وہ دو راتیں شب براءت اور لیلۃ القدر کی راتیں ہوتی ہیں۔(مکاشفۃ القلوب،ص۶۲۴)
شعبان کی 15ویں شب کو رحمت الہی کا منظر کچھ یوں ہوتا ہےکہ آسمان دنیا پر اللہ اپنی شان جل جلالہ کےساتھ جلوہ افروز ہوکر مخلوق پر نظر رحمت ڈالتا ہے اس کی رحمت کی تجلیات ہر اس شخص پر پڑتی ہےجس کادل ایمان کی دولت سے لبریزہو، شرک نے دل مسلم کو گدلا نا کیاہو، پھر اس مؤمن کا دل کینہ سے بھی پاک ہو ، شراب کے ناپاک قطروں سے منھ اور جسم کو ناپاک نہ کیا ہو، والدین کی اطاعت وفرمانبرادی میں بھی پیش پیش ہو تو اس ایمان والے شعبان کی پندرہویں شب میں رحمت وبرکت، بخشش و نجات، قدرومنزلت اور دین ودنیا میں عافیت سے نوازے جاتے ہیں۔
اس رات خیر کے دروازے کھولے جاتے ہیں، بھلائیاں بارش کےقطروں کی طرح اہل زمین پر برستی ہیں، گنہگاروں کوتوبہ و استغفار کے ذریعے رب ذوالجلال کو منانے کا موقع ملتا ہے، عبادت گزار ،شب زندہ دار کو ریاضت ومجاہدات کے اجر سے نوازا جاتا ہے۔لیکن
شعبان کی اس عظمت والی رات میں کچھ بد نصیب لوگ بھی ہیں جو نظررحمت سے اس وقت تک محروم رہتے ہیں جب تک وہ اپنے آپ کو گناہوں کے اثرات سے پاک نہیں کرلیتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں، کینہ وبغض کی آگ میں جلتے ہیں ، ماں باپ کی نافرمانی میں مبتلا رہتے ہیں، اللہ کی حرام کردہ چیز شراب پینے کے عادی ہوتے ہیں، قتل ناحق کے مجرم ہوتے ہیں ۔ یہ وہ حرماں نصیب لوگ ہیں جو بخشش والی رات میں بھی بخشش و مغفرت سے دور کردیئے جاتے ہیں۔
سورہ ٔدخان کی چوتھی آیت میں ا رشاد باری تعا لی ہے:
فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔
اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں حضرت علامہ مولانا شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں :’’ یاد رہے کہ کئی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں شعبان میں کیا ہے؟میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔‘‘
( مشکوۃ المصابیح ، کتاب الصلاۃ ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث ، ۱ / ۲۵۴ ، الحدیث: ۱۳۰۵)
ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں وہ فیصلہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرناہوتا ہے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’لوگوں کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں یہ فیصلہ ان فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں گے ۔‘‘
(بغوی ، الدخان ، تحت الآیۃ: ۴ ، ۴ / ۱۳۳)‘‘( تفسیر صراط الجنان ،جلدنہم، ص۱۷۵)
نصف شعبان کی رات آسمان دنیا سے ایک خاص اعلان کیا جاتاہےچنانچہ مولائے کائنات مولی مشکلکشا حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللّٰہتعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور اعلان کرتاہے کہ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اس کوبخش دوں ، ہے کوئی رِزق طلب کرنے والا تاکہ میں اس کورِزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زَدہ تاکہ میں اس کواس سے نجات دوں ۔یہ اعلان طلوعِ فجر تک ہوتا رہتا ہے۔‘‘
(ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلاة،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،۲/۱۶۰،حدیث:۱۳۸۸)
گویا نصف شعبان کی رات ایک عام اعلان کیا جاتا ہے کہ ہےکوئی مغفرت ، چاہنے والا، ہےکوئی رزق طلبگار، ہےکوئی غم کا مارا،ہے کوئی مصیبت زدہ آجاؤ دررحمت کھلا ہے ،ندامت کے آنسو بہاکر، شرمندہ شرمندہ جبین نیاز کو اپنے مولا کی بارگاہ میں جھکاکر اپنی زندگی کو سنورانے کےلئے دل سے پکار کہ اس کی رحمت کا دریا جوش میں ہے جو مانگے گاملے پر تیری طلب سچی ہو ، تیرا دل بغض وکینہ سے پاک ہو ،شرک کے تعفن نے تجھے زہر آلود نہ کیا ہو ، ماں باپ کو ستاتابھی نہ ہو تو پر دیکھ تیرے آنسو ؤں کی لاج کا برھم کس قدر رکھا جائے گا، تیر ی مانگ کس طرح پوری ہوگی ۔
اُمّ المؤمنحضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً)
ایک روایت میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدہ کی حالت میں ان الفاظ سے دعا فرمائی:’’اَعُوْذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ جَلَّ ثَنَاؤُكَ لَا اَبْلُغُ الثَّنَاءَ عَلَيْكَ اَنْتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ (یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!) میں تیرے عذاب سے تیری مُعافی،تیری ناراضی سےتیری رِضا اورتجھ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ،تیری تعریف بلند ہے،میں تیری تعریف کا حق اَدا نہیں کرسکتا، تیری حقیقی شان وہی ہے جو تُو نے خُود بیان فرمائی۔‘‘(تاریخ ابن عساکر ،محمد بن احمد ...الخ، ۵۱/۷۳- ۷۲، حدیث: ۵۹۲۳۔)
معمولاتِ اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل (نَفْ۔ لْ) دو دو رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔ پہلی دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّان دورَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما ۔ ‘‘ دوسری دو رَکعتوں میں یہ نیت فرمایئے: ’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رکعتوں کی بَرکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما۔ ‘‘ تیسری دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ ‘‘ ان 6رَکعتوں میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ، چاہیں تو ہر رَکعت (رَکْ ۔ عَت) میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد تین تین بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے بعداِکیس بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (پوری سورت) یا ایک بار سُوْرَۂ یٰسٓ شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ (آقا کا مہینا،ص ۲۲)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ166 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’اسلامی زندَگی‘‘ صَفْحَہ135 پرہے: اگر اس رات (یعنی شبِ براء َت) سات پتے بیری (یعنی بیر کے دَرخت ) کے پانی میں جوش د ے کر (جب پانی نہانے کے قابل ہو جائے تو ) غسل کرے اِنْ شَآءَاللہُ الْعَزِیْز تمام سا ل جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔ (آقا کا مہینا،ص ۱۵،۱۶)
اَلْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ
اَللّٰہُمَّ يَا ذَا الْمَنِّ وَلَا يُمَنُّ عَلَيْهِط يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ ط يَا ذَا الطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ ط لَآاِلٰهَ اِلَّا اَنْتَط ظَهْرُ اللَّاجِيْنَطوَجَارُ الْمُسْتَجِيْرِيْنَط وَاَمَانُ الْخَآئِفِيْنَط اَللّٰہُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِيْ عِنْدَكَ فِيْ اُمِّ الْكِتٰبِ شَقِيًّا اَوْمَحْرُوْمًااَوْمَطْرُوْداًاَوْمُقَتَّرًا عَلَيَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِيْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْط وَاَثْبِتْنِيْ عِنْدَكَ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًالِّلْخَیْرَاتِطفَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِيْ كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِطعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِط (یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ) (پارہ13، الرعد: 39)،اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِط فِيْ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَّرَمِطاَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُطاَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَاءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُط وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُطاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُط وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَطوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
شعبان المعظم ایک بارپھر ہمارے درمیان رمضان المبارک کی آمد کی خوشیاں لئے تشریف لایا اس مہینے کی قدر ومنزلت کو پیش نظر رکھ کر عبادت کےلئے تمہ تن مشغول ہونا چاہئے تاکہ عبادات کے ثمرات رمضان المبارک میں حاصل کرسکیں ۔
الحمد للہ! دعوت اسلامی ہر سال شعبان المعظم کی نصف شب میں ایک عظیم الشان اجتماع درود وسلام کا اہمتام کرتی ہے جس میں شعبان کی پندرہویں شب کے تمام معمولات کو احسن طریقہ سے ادا کیاجاتاہے۔پرسوز بیان ،رقت آمیز دعائیں اور ساری رات عبادت میں گزار کر صبح کا استقبال روزے سےکیا جاتاہے۔شعبان المعظم کی اہمیت سے متعلق مکتبۃ المدینہ نے امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتھم العالیہ کا تحریرکردہ رسالہ ’’آقاکا مہینا‘ بھی شائع کیا ہے اس مختصر رسالے میں شعبان المبارک سے متعلق بہت مفید معلومات اور اعمال بھی دیئے گئے ہیں۔ یہ رسالہ پی ڈی ایف کی صورت میں دعوت اسلامی کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔اس کےعلاوہ شعبان اور پندرہویں شب سے متعلق بہت زیادہ معلومات المدینہ لائبریری میں بھی موجود ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں شعبان المعظم کی تعظیم اور اس مبارک مہینے میں کثرت سے عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے،آمین!