Book Name:Faizan e Imam Ghazali
اس کاجواب نہیں دیا۔ جبکہ حضر ت سَیِّدُناامام ِغزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ خاموش تھے ،پھر جب آپ نے دیکھا کسی کے پاس اس کا جواب نہیں اورجواب نہ ملنااس پرشاق (ناگوار)گُزراہے، تو اس دِیہاتی کو اپنے پاس بُلاکر سُوال کا جواب بتایا ۔مگر وہ دِیہاتی مَذاق اُڑانے لگاکہ '' جس سوال کا جواب بڑے بڑے مفتیوں نے نہیں دیا، یہ عام فقیر کیسے دے رہاہے۔''اس وَقْت وہ مفتیانِ کرام یہ مَنْظر دیکھ رہے تھے ۔ دیہاتی جب آپ سے بات کرکے فارغ ہوا تواُن مفتیانِ عِظام نے اسے بُلاکر پوچھا :''اس عام سے آدمی نے کیاجوا ب دیا؟'' جب اس نےحقیقتِ حال واضح کی تویہ حضرات امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس گئے اورجب ان سے مُتعارَف ہوئے توان سے دَرْخَواست کی کہ ''آپ ہمارے لئے ایک علمی نِشَسْت کااِنْعِقادکریں۔''آپ نے اگلے دن کا فرمادیا،مگراسی رات وہاں سے سفر کرگئے ۔(طبقات الشافعیۃ الکبری،ج۶،ص۱۹۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ سَیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی اس قدر بُلند مَقام ومرتبہ رکھنے کے باوُجُود کیسا سادہ لباس زَیْبِ تَن فرماتے کہ لوگ آپ کی سادَگی کی وَجہ سے آپ کی عظمت کو پہچان نہیں پاتے تھے۔اس حکایت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کسی کے سادہ لباس وغیرہ کودیکھ کر اُسے حقیر جاننا بڑی بھول ہے۔ کیا معلوم ہم جسے حقیر تصوُّر کررہے ہیں ،وہ کوئی گُدڑی کا لعل یعنی پہنچی ہوئی ہستی ہواوریہ بھی یادرہے کہ سادہ لباس پہنناقابلِ مذمّت فعل نہیں بلکہ احادیثِ مُبارَکہ میں اس کے فضائل بیان ہوئے ہیں:چُنانچہ
تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنےارشادفرمایا،کیا تم سُنتے نہیں؟ کیا تم سُنتے نہیں؟کہ کپڑے کا پُراناہونا اِیْمان سے ہے ،بے شک کپڑے کاپُرانا ہونا اِیْمان سے ہے۔ (سنن ابی داو،دحدیث ۴۱۶۱ ج۴ ص۱۰۲ )
اِس روایت کے تَحت حضرتِ سیّدُناشاہ عبدُالحق مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں :’’زینت