Bimari Kay Faiedy

Book Name:Bimari Kay Faiedy

پیاری پیاری ا سلامی بہنو! عموماً بعض اسلامی بہنوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب بیمار ہوجائیں اور کوئی مزاج پوچھنے آئے تو خواہ مخواہ ان کے سامنے شکوے شکایات کے انبار لگادیتی ہیں، مثلاً”ارے بہن! کیا بتاؤں؟بیماریاں جان نہیں چھوڑتیں “۔”علاج کرواکروا کر تھک گئی ہوں مگر کہیں سے بھی افاقہ نہیں ہورہا“۔”اتنا پرہیز کرتی ہوں مگرمَرَض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی“کے مِصداق مرض میں مسلسل اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے “۔”مہنگے ترین ہسپتالوں اور دواخانوں کے دھکے بھی کھائے“۔”مہنگی دوائیں بھی استعمال کیں،ایک عرصے سے تعویذات بھی استعمال کررہی ہوں،  مگر بیماریاں ہیں کہ جان چھوڑنے کا نام نہیں لیتیں“۔”ارے بہن!حال کیا پوچھتی ہو؟بیماریوں نے تو جوانی میں ہی بوڑھا کردیا“۔”معدہ خراب رہتا ہے“۔” کمزوری بڑھتی جارہی ہے“۔”شوگر Sugar ،بلڈ پریشر(B.P.) اور یورک ایسیڈ (Uric acid)بڑھ چکے ہیں“۔”دل،گردے یاجگرنے کام کرنا چھوڑدیا ہے“۔بیماریوں کے سبب تو میں زندگی کی حقیقی خوشیوں کو ترس گئی ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یادرکھئے!بیماری کی حالت میں صبر کرنے کے بجائے لوگوں کو اپنے دکھڑے سنانے، بیماریوں کا رونا رونے اور بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے مرض ٹھیک ہونے سے تو رہا اُلٹا اس سے بیماری کی برکتوں سے محرومی گلے پڑسکتی ہے، جیسا کہ

فرشتوں کی دعا سے محروم بیمار

حدیثِ پاک میں ہے:جب کوئی شخص بیمار ہوتاہے تو اللہ پاک دو فرشتوں کوحکم فرماتا ہے: دیکھو ! یہ شخص عیادت کرنے والوں سے کیا کہتاہے؟اگر وہ اللہ پاک کا شکر بجالائے اور اچھی بات کہے تو دونوں فرشتے اسے دعا دیتے ہیں اور اگر شکوہ کرے اور بیماری کو بُراکہے تو دونوں کہتے ہیں:تواسی حال میں