Book Name:Bemari kay Faiday
گھر میں کرتا تھا ۔ (بخاری ، کتاب الجہاد ، باب یکتب للمسافر…الخ ، ۲ / ۳۰۸ ، حدیث : ۲۹۹۶)
بیان کردہ آخری حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : یعنی اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے وہ تَہَجُّد وغیرہ نوافل نہ پڑھ سکے تو اس کو ان کا ثواب مل جائے گا بَشَرْطیکہ تندرستی میں ان چیزوں کاپابند ہو۔ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیماری یا سفرمیں فرائض معاف ہوجاتے ہیں ، وہ تو ادا کرنے ہی پڑیں گے اور اگر وہ رہ گئے ہوں تو ان کی قضاء واجب ہوگی۔ (مرآۃ المناجیح ، ۱ / ۴۱۳)
پیاری پیاری اسلامی بہنو!بیان کردہ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا !* بیماری مغفرت کا سبب ہے ، * گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے ، * اس کے سبب گناہ جھڑ جاتے ہیں ، * بیماری میں مُبْتَلا مسلمان کو اللہ پاک اپنا محبوب بنالیتا ہے ، * بیماری کی حالت میں حمدِ الٰہی کرنے والی اگر اسی بیماری میں انتقال کرجائے تو جنت کی حق دار قرار پاتی ہے ، * اگر صحت یاب ہوجائے تو پہلے سے بہتر گوشت اور خون ملنے کی خوشخبری ہےاور* بیماری کی حالت میں بندے کے وہی اعمال لکھ دئیے جاتے ہیں جو وہ تندرستی اور گھر میں کیا کرتا تھا۔ افسوس! بعض اسلامی بہنیں بیماریوں کے فضائل و برکات کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے بیماریوں کو بُرا بھلا کہنے اور شکوے شکایات کرنے لگتی ہیں ، مثلاً “ یہ بخار(Fever) بھی بڑی منحوس بیماری ہے ، یہ دردِ سر بھی کتنا بُرا مرض ہے کہ اس نے تو مجھے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ، اس نزلے زُکام نے تو مجھے آدھا کردیا ہے کہ اس کے سبب تو میری ساری روٹین ہی ڈِسٹرب ہوگئی ہے “ وغیرہ۔
یاد رکھئے!بیماریوں کو بُرا کہنا ہرگز عقلمندی نہیں خصوصاً بخار اور دردِ سر کو ، اس لئے کہ بخار اور دردِ سَر وہ مبارَک بیماریاں ہیں ، جنہیں نبیوں کی بارگاہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوا ہے۔ حدیثِ پاک میں