Book Name:Shan-e-Farooq-e-Azam
تو ہم میں سے ہر ایک اپنی چادر کو اپنے سر سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتی اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتی تھیں۔ (ابو داود ، کتاب المناسک ، باب فی المحرمۃ تغطی وجہہا ، ۲ / ۲۴۱ ، حدیث : ۱۸۳۳)
پیاری پیاری اسلامی بہنو!آپ نے سنا کہ اَزواجِ مُطَہَّرات پردے کا کس قدر اہتمام کیا کرتی تھیں اور ربِّ کریم کے احکامات پر ان کا کیسا عمل تھا۔ اے کاش! ہمارے معاشرے کی اسلامی بہنیں بھی ان کے کردار سے نصیحت حاصل کریں اور بے پردگی کی آفت سے اپنے آپ کو بچائیں ، ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنی والدہ ، بہنوں ، بیٹیوں اور اپنی سہیلیوں کو بھی اس طرح کے واقعات سناتی رہا کریں ، یوں ان کے دل میں پردے کی اَہَمِّیَّت مزید اُجاگر ہوگی اور وہ بھی بے پردگی کی آفت اور تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوسکیں گی۔
ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نَمازِ عشا کے بعد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی خدمت میں حاضِر ہوئے تو انہوں نے پوچھا : کیسے آنا ہوا؟عَرْض کی : کچھ ضروری کام تھا۔ اِرشاد فرمایا : اس وَقْت؟عرْض کی : حُضور!یہ کام شرعی مسائل سیکھنے سکھانے سے تَعَلّق رکھتا ہے۔ اِرشاد فرمایا : ایسا ہے تو آ جائیے! اس کے بعد دونوں حضرات رات گئے تک عِلْمی مذاکرے میں مصروف رہے ، (تقریباً سحری کے وَقْت) جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَاللّٰہُ عَنْہ نے جانے کی اِجازت طلب کی تو حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا : بیٹھ جائیے! کہاں جا رہے ہیں؟عرض کی : (نَمازِ فَجْر کا وَقْت ہونے والا ہے ، اس سے پہلے پہلے) میں چاہتا ہوں کہ کچھ نوافل ادا کر لوں۔ اِرشاد فرمایا : ہم نَماز ہی میں ہیں (کہ گھڑی بھر دینی مسائل کی باتیں کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے)۔ چنانچِہ وہ پھر بیٹھ گئے اور دونوں حضرات دوبارہ شرعی مسائل کے بارے میں گفتگو شروع کردی یہاں تک کہ فَجْر کا وَقْت ہو گیا۔ (شرح صحیح بخاری لابن بطال ، کتاب العلم ،