Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 158 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔}صبر اورصابرین کے اِجمالی بیان کے بعد اب صبر کا ایک مشہور اور عظیم واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صفاو مروہ مکہ مکرمہ کے دو پہاڑ ہیں جو کعبہ معظمہ کے بالمقابل مشرقی جانب واقع ہیں ،حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان دونوں پہاڑوں کے قریب اس مقام پر جہاں زمزم کا کنواں ہے حکمِ الہٰی سے سکونت اختیار فرمائی۔ اس وقت یہ مقام سنگلاخ بیابان تھا، نہ یہاں سبزہ تھا نہ پانی، نہ خوردو نوش کا کوئی سامان۔ رضائے الہٰی کے لیے ان مقبول بندوں نے صبر کیا۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت کم عمر تھے،انہیں پیاس لگی اور جب پیاس کی شدت بہت زیادہ ہوگئی تو حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بے تاب ہو کر کوہِ صفا پر تشریف لے گئیں وہاں بھی پانی نہ پایا تواُتر کر نیچے کے میدان میں دوڑتی ہوئی مروہ تک پہنچیں۔اس طرح سات چکر لگائے۔(صاوی، ابراہیم، تحت الایۃ: ۳۷، ۳ / ۱۰۲۷-۱۰۲۸)
اور اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘’’اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘کا جلوہ اس طرح ظاہر فرمایا کہ غیب سے ایک چشمہ زمزم نمودار کیا اور ان کے صبر و اخلاص کی برکت سے ان کے اتباع میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے والوں کو مقبولِ بارگاہ قرار دیا اور ان دونوں پہاڑوں کو قبولیتِ دعا کا مقام بنادیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ ابراہیم آیت 13میں بھی مذکور ہے۔
{مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔} شَعَآىٕرِ اللّٰهِ سے دین کی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ ،عرفات، مُزدلفہ ، تینوں جَمرات (جن پر رمی کی جاتی ہے)، صفا،مروہ، منیٰ،مساجد یا وہ شعائر زمانے ہوں جیسے رمضان، حرمت والے مہینے ، عیدالفطر وعیدالاضحی ، یومِ جمعہ، ایاّمِ تشریق یا وہ شعائر کوئی دوسری علامات ہوں جیسے اذان، اقامت ، نمازِ با جماعت، نمازِ جمعہ، نماز عیدَین، ختنہ یہ سب شعائر ِدین ہیں۔(تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۱ / ۹۱ملخصاً)
نیک لوگوں سے نسبت کی برکت:
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کو صالحین سے نسبت ہو جائے وہ چیز عظمت والی بن جاتی ہے، جیسے صفا مروہ پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے قدم کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی نشانی بن گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مُعَظَّم چیزوں کی تعظیم و توقیر دین میں داخل ہے اسی لئے صفا مروہ کی سعی حج میں شامل ہوئی۔
{فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ: تو اس پر کوئی حرج نہیں۔}اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں صفا و مروہ پر دو بت رکھے تھے، صفا پر جو بت تھا اس کا نام اُساف اور جو بت مروہ پر تھا اس کا نام نائلہ تھا۔ کفار جب صفاومروہ کے در میان سعی کرتے تو ان بتوں پر تعظیماًہاتھ پھیرتے،زمانۂ اسلام میں یہ بت تو توڑ دیئے گئے لیکن چونکہ کفار یہاں مشرکانہ فعل کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا گراں محسوس ہوتا تھا کیونکہ اس میں کفار کے مشرکانہ فعل کے ساتھ کچھ مشابہت بنتی ہے ،اس آیت میں ان کا اطمینان فرما دیا گیا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۳۸)
کہ چونکہ تمہاری نیت خالص عبادت الہٰی کی ہے لہٰذا تمہیں مشابہت کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے اور جس طرح خانہ کعبہ کے اندر زمانہ جاہلیت میں کفار نے بت رکھے تھے اب عہد اسلام میں بت اٹھادیئے گئے اور کعبہ شریف کا طواف درست رہا اور وہ شعائر ِدین میں سے رہا اسی طرح کفار کی بت پرستی سے صفا و مروہ کے شعائر ِدین ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا۔
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں کہ حج میں سعی (یعنی صفا و مروہ کے سات چکر) واجب ہے۔ اس کے ترک کرنے سے دم دینا یعنی قربانی واجب ہوتی ہے۔اس کے بارے میں تفصیلی احکام کیلئے بہارِ شریعت حصہ 6کا مطالعہ فرمائیں۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.