Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 195 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔} راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اصل حکم تو مال کے حوالے سے ہے لیکن علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے معنیٰ کی مزید وسعت کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی رضا کے کاموں میں اپنے جان و مال کو صرف کرو خواہ جہاد ہو یا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یا اللہ تعالیٰ کے کمزور اور غریب بندوں کی مددکی صور ت میں ہو۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۱۶۳)
{وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ: اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔} خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں :۔
(1)…صحیح بخاری میں ہے’’یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وانفقوا فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۷۸، الحدیث: ۴۵۱۶)
یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
(2)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ہم انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کےبارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا اور اس کے مددگار کثیر ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: (جہاد کی مصروفیت میں ) ہمارے مال ضائع ہو گئے لہٰذااب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو (کیا ہی اچھا ہو کہ)اگر ہم اپنے اموال میں ٹھہریں اور جو ضائع ہوا اس کی درستی کرلیں ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو ہم نے کہا اس کا رد فرمایاکہ ہلاکت توجہاد چھوڑکر اپنے اموال کی درستی میں لگ جانا ہے۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴ / ۴۵۴، الحدیث: ۲۹۸۳)
(3)… انصار جتنا اللہ تعالیٰ توفیق دیتا صدقہ و خیرات کرتے رہتے ۔ ایک سال انہیں تنگدستی کا سامنا ہوا تو انہوں نے یہ عمل روک دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۱)
(4)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ کوئی شخص گناہ کرتا اور کہتا میری بخشش نہ ہو گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۲)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ترک کرنا بھی ہلاکت کا سبب ہے، فضول خرچی بھی ہلاکت ہے، جہاد ترک کرنا بھی ہلاکت ہے یونہی اس طرح کی ہر وہ چیز جو ہلاکت کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے حتیّٰ کہ بے ہتھیار میدان جنگ میں جانایا زہر کھانا یا کسی طرح خود کشی کرناسب حرام ہے۔چونکہ خودکشی خود کو ہلاک کرنے کی نہایت ہی نمایاں صورت ہے لہٰذا یہاں اس کی وعید بیان کی جاتی ہے، چنانچہ خود کشی کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کی وہ مسلسل جہنم میں گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر خود کشی کی ( قیامت کے دن) وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ کھاتا رہے گا اورجس نے چھری کے ذریعے خود کو قتل کیا ، (قیامت کے دن) وہ چھری اس کے ہاتھ میں ہو گی اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ وہ چھری اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدوائبہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.