Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Baqarah Ayat 196 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(87) | Tarteeb e Tilawat:(2) | Mushtamil e Para:(1-2-3) | Total Aayaat:(286) |
Total Ruku:(40) | Total Words:(6958) | Total Letters:(25902) |
{ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ:اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو۔}آیت میں مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خاص اللہ تعالیٰ کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔
حج کی تعریف اور حج و عمرہ کے چند احکام:
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہو ا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۰۳۵-۱۰۳۶)
حج کے فرائض یہ ہیں :(۱)…احرام (۲)… وقوف ِ عرفہ (۳)… طواف زیارت۔
حج کی تین قسمیں ہیں : (۱)…اِفرادیعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲)…تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳)…قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔ عمرہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عمرہ میں صرف احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف اورصفامروہ کی سعی کرکے حلق کروانا ہوتا ہے۔ حج و عمرہ دونوں کے ہر ہر مسئلے میں بہت تفصیل ہے۔ اس کیلئے بہارِ شریعت کے حصہ 6([1])کا مطالعہ کریں۔
{ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ:تو اگر تمہیں روک دیا جائے۔} یہاں سے حج کے ایک اہم مسئلے کا بیان ہے جسے اِحصار کہتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرحج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعدحج یا عمرہ کی ادائیگی میں تمہیں کوئی رکاوٹ پیش آجائے جیسے دشمن کا خوف ہو یا مرض وغیرہ توایسی حالت میں تم احرام سے باہر آجاؤاور اس صورت میں حدودِحرم میں قربانی کا جانور اونٹ یا گائے یا بکری کا ذبح کروانا تم پر واجب ہے اور جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ ہوجائے تب تک تم سر نہ منڈواؤ۔
{ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا: پھر جو تم میں بیمار ہو۔} اِحصار کے بعد ایک اور مسئلے کا بیان ہے وہ یہ ہے کہ حالت ِ احرام میں بال منڈوانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یونہی لباس، خوشبووغیرہ کے اعتبار سے کافی پابندیاں ہوتی ہیں۔ اگر ان کا خِلاف کریں تو دَم یا صدقہ لازم آتا ہے لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں کہ مجبوری کی وجہ سے احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔ بغیر عذر کے اور عذر کی وجہ سے کئے گئے افعال میں شریعت نے کچھ فرق کیا ہے ۔ آیت میں اس کی کچھ صورتوں کا بیان ہے۔ جان بوجھ کر احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرے گا تو گناہگار بھی ہوگا اور فدیہ دینا بھی لازم آئے گا اور مجبوری کی وجہ سے مخالفت کرے تو گناہگار نہ ہوگا لیکن فدیہ دینا پڑے گا البتہ مجبوری والے کو فدیے میں کچھ رخصتیں بھی دی گئی ہیں چنانچہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں اس میں اختیار ہو گا کہ دَم (قربانی) کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے۔اور اگر اس (جرم)میں صدقہ کا حکم ہے اوربمجبوری کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے ۔(بہارِ شریعت، حصہ ششم، جرم اور ان کے کفارے کا بیان،۱ / ۱۱۶۲)
{فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ: تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے۔} جو شخص ایک ہی سفرمیں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے اس پر شکرانے کے طور پر قربانی لازم ہے اور یہ قربانی عید کے دن والی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جداگانہ ہوتی ہے اوراگر قربانی کی قدرت نہ ہو تو اسے حکم ہے کہ دس روزے رکھے، ان میں سے تین روزے حج کے دنوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد کسی بھی تین دن میں رکھ لے، اکٹھے رکھے یا جدا جدا دونوں کا اختیار ہے اور سات روزے 13ذی الحجہ کے بعد رکھے۔مکہ مکرمہ میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ گھر واپس لوٹ کر رکھے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۱۴۰-۱۱۴۱، ملخصاً)
{حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: مکہ کے رہنے والے۔} حجِ تمتع یا حجِ قِران کا جائز ہونا صرف آفاقی یعنی میقات سے باہر والوں کے لئے ہے ۔ حدودِ میقات میں اور اس سے اندر رہنے والوں کے لئے نہ تمتع کی اجازت ہے اورنہ قران کی، وہ صرف حجِ اِفراد کرسکتے ہیں۔
[1] ۔۔۔امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادی رضوی دَامَت بَرَکاتُہُم الْعالیہ کی کتاب ،،رفیق الحرمین،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھنا بھی بہت مفید ہے۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.