Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Haqqah Ayat 18 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(78) | Tarteeb e Tilawat:(69) | Mushtamil e Para:(29) | Total Aayaat:(52) |
Total Ruku:(2) | Total Words:(284) | Total Letters:(1117) |
{یَوْمَىٕذٍ تُعْرَضُوْنَ: اس دن تم سب پیش کئے جاؤ گے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال جانتا ہے ، ا س پر تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں اور قیامت کے دن تم اسی کی بارگاہ میں حساب کے لئے پیش کئے جاؤ گے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا میں تمہاری جو حالت پوشیدہ تھی قیامت کے دن وہ پوشیدہ نہیں رہے گی کیونکہ وہ مخلوق کے احوال ظاہر کر دے گی تو نیک لوگ اپنی نیکیوں کی وجہ سے خوش ہوں گے اور گناہگار اپنے گناہوں کی وجہ سے غمزدہ ہوں گے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۰۴)
اپنے اعمال کا محاسبہ اور اُخروی حساب کی تیاری کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں دنیا میں ہی اپنے اعمال کا محاسبہ کرلینے اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہونے والے حساب کی تیاری کر لینے کی بھی ترغیب ہے ۔اسی چیز کا حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘(الحشر:۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے۔
اور اپنے حساب کے معاملے میں لوگوں کا حال بیان کرتے ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘(انبیاء:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
اور قیامت کے دن حساب کے معاملات اور لوگوں کی جزا کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:’’وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّاؕ-لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ٘-بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا(۴۸) وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۸،۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے، بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بارپیدا کیا تھا، بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت نہ رکھیں گے۔ اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو (لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈررہے ہوں گے اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳)اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ(۱۴) مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا‘‘(بنی اسرائیل:۱۳۔۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ (فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامہ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔ جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے فائدے کیلئے ہی ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا تو اپنے نقصان کو ہی گمراہ ہوا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(رعد:۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اورحضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!تم حساب لئے جانے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کر لو اور (اعمال کا) وزن کئے جانے سے پہلے اپنے آپ (کے اعمال) کا وزن کر لو اور اس دن کی بڑی پیشی کی تیاری کر لو جس دن تم سب (اللّٰہ کی بارگاہ میں ) اس حال میں پیش کئے جاؤ گے کہ تم میں سے کسی کی کوئی پوشیدہ حالت چُھپ نہ سکے گی۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۱۴۹، الحدیث: ۱۸)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور آخرت میں ہونے والے حساب کی ابھی سے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.