Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Hashr Ayat 9 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(101) | Tarteeb e Tilawat:(59) | Mushtamil e Para:(28) | Total Aayaat:(24) |
Total Ruku:(3) | Total Words:(497) | Total Letters:(1943) |
{وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور وہ جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔} اس آیت میں انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی انتہائی مدح وثنا کی گئی ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنہوں نے مہاجرین سے پہلے یا ان کی ہجرت سے پہلے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے اس شہرمدینہ کو اپنا وطن اور ایمان کو اپناٹھکانہ بنالیا، اسلام لائے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے دوسال پہلے مسجد یں بنائیں ،ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں (اور اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ) اپنے گھروں میں اُنہیں ٹھہراتے اور اپنے مالوں میں نصف کا انہیں شریک کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اُس مال کے بارے میں کوئی خواہش اور طلب نہیں پاتے جو ان مہاجرین کو دیا گیا اور وہ اپنے اَموال اور گھر ایثار کر کے مہاجرین کواپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود مال کی حاجت ہو اور جس کے نفس کو لالچ سے پاک کیا گیا تو وہی کامیاب ہیں ۔
نوٹ:بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا تعلق پچھلی آیات کے ساتھ ہے اوراس میں انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی اس مال کا حصہ بیان کیا گیا ہے جو بنو نضیر کے یہودیوں سے حاصل ہوا۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۴۳۲، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۴۸، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۲۵، ملتقطاً)
انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا بے مثل ایثار:
انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ جس اَخُوَّت،محبت اور ایثار کا مظاہرہ کیا تاریخ میں ا س کی مثال ملنا انتہائی مشکل ہے ،یہاں ان کے ایثار کے تین واقعات ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں انصار نے عرض کی :ہمارے اور ہمارے (مہاجر )بھائیوں کے درمیان کھجور کے درخت تقسیم فرما دیجئے ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار فرما دیا،انصار نے مہاجرین سے کہا:آپ محنت کی ذمہ داری لے لیں اور ہم آپ کو پھلوں میں شریک کر لیتے ہیں ،مہاجرین نے کہا:ہمیں آپ کی بات منظور ہے۔( بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی المعاملۃ، ۲ / ۲۲۰، الحدیث: ۲۷۱۹)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بحرَیْن میں جاگیریں بخشنے کے لئے انصار کو بلایا تو انہوں نے عرض کی :اگر آپ نے یہی کرنا ہے تو ہمارے قریشی بھائیوں کے لئے لکھ دیجئے حالانکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس نہ تھے ۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب کتابۃ القطائع، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۲۳۷۷)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک لگی ہوئی ہے ۔آپ نے ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللّٰہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ۔انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حاضرہوں ۔چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان آیا ہے ، لہٰذا تم نے اس سے کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی ۔ انہوں نے عرض کی :ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
( بخاری، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۴۸، الحدیث: ۴۸۸۹)
نفس کے لالچ سے پاک کئے جانے والے کامیاب ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر اللّٰہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے ۔یہ عادت کس قدر نقصان دِہ ہے ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث ِپاک سے لگایا جا سکتا ہے ، چنانچہ
حضر ت جابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ظلم کرنے سے ڈروکیونکہ ظلم قیامت کااندھیراہے اورشُح ( یعنی نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شُح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۶(۲۵۷۸))
اور اس سے بچنا کس قدر فائدہ مند ہے اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ
مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیتُ اللّٰہ شریف کاطواف کررہے اور یہ دعامانگ رہے تھے:اے اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ ،مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ نہیں کہتے تھے ،جب ان سے اس کے بارے میں اِستفسارکیاگیاتوانہوں نے فرمایا:جب مجھے میرے نفس کی حرص سے محفوظ رکھاگیاتونہ میں چوری کروں گا،نہ زناکروں گااورنہ ہی میں نے اس قسم کاکوئی کام کیاہے ۔( تفسیر طبری، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۱۲ / ۴۲)
اللّٰہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے حرص اور لالچ سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
آیت ’’وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کرنااللّٰہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
(2)…انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی تعریف میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے محبت کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ تمام مہاجرصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے محبت کرنا کمالِ ایمان کی نشانی ہے۔
(3)…سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت نے انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے دل ایسے پاک کردیئے کہ وہ مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حسد نہیں کرتے اور ان کے ساتھ محبت و اِیثار کا سلوک کرتے ہیں ۔