Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Kahf Ayat 48 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(69) | Tarteeb e Tilawat:(18) | Mushtamil e Para:(15-16) | Total Aayaat:(110) |
Total Ruku:(12) | Total Words:(1742) | Total Letters:(6482) |
{وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ: اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔} یہاں قیامت واقع ہونے کے بعد کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے ، ہر ہر امت کی جماعت کی قطاریں علیحدہ علیحدہ ہوں گی اور اللّٰہ تعالیٰ اُن سے فرمائے گا: بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی ننگے بدن، ننگے پاؤں ، مال و زر سے خالی ہوکر آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بارپیدا کیا تھا او رپھر جو قیامت کے منکرین ہوں گے ان سے کہا جائے گاکہ تمہارا تو گمان یہ تھا کہ قیامت نہیں آئے گی اور تمہارے لئے حساب و کتاب کا کوئی وعدہ نہیں ہے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جو تمہیں اِس وعدے سے خبردار کیا تھا اسے تو تم نے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۶۵۴، ملخصاً)
غافل مسلمانوں کے لئے نصیحت:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی عزت و عظمت اوراس کے قہر و جلال کی صفت کے اظہار اور اس کے عدل کے آثار کی طرف اشارہ ہے تاکہ جو لوگ سو رہے ہیں وہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں اور غفلت کے شکار لوگ قیامت کے دن نجات پانے کے اسباب اختیار کرکے اور اپنے پوشیدہ و اعلانیہ معاملات درست کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے خطاب کا جواب دینے کی تیاری کریں کیونکہ اسی کی طرف ہر ایک کو لوٹنا ہے اورجو پیشی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہوگی وہی سب سے بڑی پیشی ہے اور وہ کسی بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کی طرح نہ ہوگی۔ حضرت عتبہ خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میرے پاس حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک رات ٹھہرے تو وہ اتنا روئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی ۔ میں نے ان سے کہا:آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟انہوں نے جواب دیا:اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی کی یاد نے محبت کرنے والوں کی رگیں کاٹ کر رکھ دی ہیں ۔
مروانی خلفاء میں سے ساتویں خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا ’’ہم آخرت کو کیوں ناپسند کرتے ہیں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’کیونکہ تم نے اپنی دنیا کو آباد کیا اور اپنی آخرت کو ویران کر دیااس لئے تم آبادی سے ویرانی کی طرف منتقل ہونے کو ناپسند کرتے ہو۔ سلیمان بن عبد الملک نے کہا: اے ابو حازم! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، آپ نے سچ کہا، اے کاش میں جان سکتا کہ کل اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے لئے کیا ہو گا! حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اگر تم چاہو تو یہ بات جان سکتے ہو کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے۔ اس نے کہا: میں اسے (اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں ) کس جگہ پا سکتا ہوں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان میں
’’ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍۚ(۱۳)وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ‘‘(انفطار:۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک نیک لوگ ضرور چین میں (جانے والے) ہیں ۔ اور بیشک بدکار ضرور دوزخ میں (جانے والے) ہیں ۔
سلیمان بن عبد الملک نے کہا :اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی کس طرح ہو گی؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’نیک لوگ تو ایسے پیش ہوں گے جیسے وہ پیش ہی نہیں ہوئے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف شاداں و فَرحاں واپس آ جائیں گے اور گناہگار اس طرح پیش ہوں گے جیسے بھاگے ہوئے غلام کو اس کے آقا کے سامنے باندھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر سلیمان بن عبد الملک بہت رویا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۲۵۳)
وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی
جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اَجَل بھی
بس اب اپنے اس جَہل سے تُو نکل بھی
یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے