Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Kahf Ayat 49 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(69) | Tarteeb e Tilawat:(18) | Mushtamil e Para:(15-16) | Total Aayaat:(110) |
Total Ruku:(12) | Total Words:(1742) | Total Letters:(6482) |
{وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا۔} یہاں قیامت کا وہ اہم اور نازک ترین مرحلہ بیان کیا گیا ہے جہاں جنتی اور جہنمی ہونے کا اعلان ہونا ہے کہ ہر بندے کا نامۂ اعمال اس کو دیا جائے گا ،مومن کا دائیں ہاتھ میں اور کافر کا بائیں میں ۔ اس وقت نامہ اعمال کو دیکھ کر جو برے لوگوں کی حالت ہوگی وہ دہشت انگیز ہوگی کہ وہ نامہ اعمال دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے ، ایک ذرے کے برابر بھی کوئی گناہ ہوگاتو وہ نامہ اعمال میں درج ہوگا اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ، نہ کسی پر بغیر جرم عذاب کرے گا اور نہ کسی کی نیکیاں گھٹائے گا۔ حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو کہتے :ہائے بربادی، اے لوگو! کبیرہ گناہوں سے پہلے صغیرہ گناہوں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں رجوع کرلو۔( قرطبی، الکہف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۳۰۲، الجزء العاشر)
صغیرہ گناہوں سے بھی بچیں :
اس آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر کبیرہ گناہوں سے بچے اور اس کے ساتھ ساتھ صغیرہ گناہوں سے بھی خود کو بچانے کی کوشش کرے کیونکہ قیامت کے دن صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ملیں گے اور اس دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا۔ کثیر اَحادیث میں صغیرہ گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ!رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، ان گناہوں سے تم بھی پرہیز کرو جنہیں تم حقیر سمجھتی ہو کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بھی سوال ہوگا۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۴۲۴۳)
حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم ان گناہوں سے بچو جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو، ان گناہوں کی مثال اس قوم (کے لوگوں ) کی طرح ہے جو ایک وادی میں اترے تو ایک شخص ایک لکڑی لے آیا اور دوسرا شخص دوسری لکڑی لے آیا یہاں تک کہ ا نہوں نے اتنی لکڑیا ں جمع کر لیں جنہیں جلا کر انہوں نے اپنی روٹیاں پکالیں (یعنی لکڑیوں کو آگ لگانے کیلئے چھوٹی لکڑیوں کو آگ لگائی جس سے بڑی لکڑیوں کو بھی آگ لگ گئی، گویا یہی حال صغیرہ گناہوں کے اِرتکاب سے کبیرہ تک جانے کا ہے)، اور بے شک صغیرہ گناہ کرنے والے کا جب مُؤاخذہ کیا جاتا ہے تو یہ گناہ اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵ / ۲۷۸، الحدیث: ۷۳۲۳)
علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ (اس حدیث میں چھوٹے گناہوں سے بچنے کا فرمایا گیا) کیونکہ جس طرح چھوٹی نیکیاں بڑی نیکیاں کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اسی طرح صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ، کبیرہ یعنی بڑے گناہوں کے اِرتکاب کاسبب بن جاتے ہیں ، امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’صغیرہ گناہوں میں سے بعض گناہ دوسرے گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں حتّٰی کہ اصل سعادت فوت ہو جاتی ہے اور خاتمہ کے وقت ایمان سے ہی محرومی ہو جاتی ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جسے چاہے صغیرہ گناہ پر عذاب دیدے اور جس کے لئے چاہے کبیرہ گناہ بخش دے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۶۴، تحت الحدیث: ۲۹۱۶)